Cooking in SusralDoing Grocery in SusralFeatured

ساس کا گھر۔۔۔

ساس کا گھر۔۔۔

زبیدہ خاتون کے چار بیٹے ہیں، چاروں ماشاﷲ سے برسرروزگار اور گھر بار والے۔ شوہر کے انتقال کے بعد انھوں نے لڑکوں کی تربیت احسن طریقے سے کی۔ بیوگی کی چادر کو اس خوبصورتی سے اوڑھا کہ میکہ اور سسرال سب ان کے معترف ۔ لڑکے بھی ان کے فرمانبردار اور تابعدار، گھر کے تمام انتظامی امور وہ ہی دیکھتی ہیں، لڑکے تمام پیسے لاکران کے ہاتھ میں رکھتے ہیں، گھر کی تنہا مالک۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ شراکت کی قائل نہیں۔ گھر میں ہونے والےجھگڑے وہ آمرانہ انداز میں حل کرتی ہیں۔ وہ اپنے گھر کی مطلعق العنان ملکہ ہیں جو اپنے سامنے ہونے والی بغاوت کو طاقت سے کچلنے کی قائل ہیں۔

پہلی بہو ان کے جیٹھ کی بیٹی ہے، دوسری ان کی بھانجی، تیسری ان کی بھتجی، اور چوتھی بہو ان کے بیٹے کی پسند کی۔ چوتھی بہو بھی وہ خاندان کی لانا چاہتی تھیں مگر حمزہ اپنی پسند پر اڑ گیا، حمزہ چونکہ ان کا لاڈلا تھا اس لئے اس کی پسند کے آگے انھوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ حمزہ نے یونیورسٹی میں حمنہ کو دیکھا تو اس کی نیک سیرت اور بھولی صورت کے آگے دل ہار گیا، ماں کے آگے کشکول لے کر محبت کی بھیک مانگنے لگا۔ ماں نے لاڈلےکے کشکول میں اپنی ہامی کے سکے ڈال کر قبولیت کی سند بخش دی۔

گھر کا سودا سلف لانے کی ذمے داری بہووں کی ہوتی ہے، جو باری باری ہر بہو پوری کرتی ہے۔ زبیدہ خاتون اس طرح لبرل ساس ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر لگاتی ہیں۔ اور مخالفین کے منہ بند کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اس بار حمنہ کی باری تھی اور اسے سوداسلف لینے جانا تھا، وہ گھبرائی ہوئی تھی کیونکہ وہ زبیدہ خاتون کے اطوار سے خوف زدہ تھی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک تو کوئی ساتھ جانے کو تیار نہ تھا کہ مدد کی امید ہوتی، اس نے اشارے کنائیوں میں پہلو بچانے کی کوشش کی مگر بھلا ہو کرونا کا کہ جس کی وجہ سے سماجی فاصلہ زندگی کی علامت بن گیا تھا۔ حمزہ سے مشکل کا ذکر کیا تو حمزہ نے اسے سمجھایا کہ یہ تو بہت معمولی سی بات ہے اور حمنہ کی ذہانت کا تو وہ ہمیشہ سے قائل ہے اسلئےحمنہ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ زبیدہ خاتون نے حمنہ کو پینتیس ہزار دئیے اور سودے کی لسٹ اس کے ہاتھ میں تھمائی، حمنہ پیسے اور لسٹ لئے اپنے کمرے میں آئی۔ لسٹ پر نظر ڈالی اور اشیاء کی قیمت گوگل کرنے لگی، چودہ طبق روشن ہوگئے۔ پیسے کم اور سودے کی قیمت زیادہ، شش وپنج کا شکار کہ کیا کرے؟ حمزہ سے بات کرنے کا فائدہ نہیں تھا، وہ تمام ذمے داری اس خوبصورتی سے حمنہ کے کندھے پر ڈالے گا کہ حمنہ ان خوبصورت الفاظ کی شیرینی کی مٹھاس میں کھو جاۓ گی۔

جیٹھانیوں سے بے تکلفی تو ایک طرف ضرورتاً بات چیت کا رواج بھی کم تھا، حمنہ چونکہ خاندان کی نہیں تھی اسلئے اسے دوسرے درجےکا شہری ہی تصور کیا جاتا ہے، گھر کے وہ کام جو غیر اہم قسم کے مگر محنت طلب ہوتے ہیں وہ حمنہ کے درد سر، اسے خاندانی سیاست کا شکار کر کے اکثرنیب (ساس) کے روبرو کر دیا جاتا جہاں اسے سیاست کی بھینٹ چڑھا کر مورد الزام ٹھرایا جاتا اور سماجی اور سفارتی طور پر تنہا کردیا جاتا، طنز کی بارش وجود کو چھلنی کرنے کے لئے کافی ہوتی تھی، حمزہ کی پسند ہونا ا س کے گلے میں طوق تھا، برملا اسے کہا جاتا کہ وہ یونیورسٹی صرف برتلاش کرنے جاتی تھی، تعلیم تو بہانہ تھا۔ ان کے خاندان میں کیونکہ لڑکیاں پہلے ہی سے منسوب ہوتی ہیں اسلئے وہ صرف پڑھتی ہیں اور اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے اچھے اور شریف گھر کے لڑکے نہیں پھانستیں۔

پینتیس ہزار اور سودے کی لمبی فہرست، تنہا حمنہ ۔ اس کی ماں نے رخصت کرتے ہوۓ نصحیت کی تھی کہ سسرال میں دال بھی کھاؤ تو میکے میں متنجن بتاؤ۔ سسرال کی محبت ، نفرت، احساس، خیال، دکھ ، درد سب تمہارا ہے، تم نے صرف محبت سے تنکا تنکا جوڑنا ہے اور آشیانہ بنانا ہے، کام مشکل ہے مگر تمہاری ماں کو تم پراور اپنی تربیت پر پورا بھروسہ ہے، مشکل کام کو اس اسلوبی سے نبھاؤ کہ تم پر سے حمزہ کی پسند کی چھاپ مٹ جاۓ، تم اپنی پہچان بنا کرماں باپ کی تربیت پر فخر کرنا۔

آج سے پہلے کبھی گھر کا سودا سلف لائی نہیں تھی ، تجرے کی بنیاد پر صفر ، پوری رات کشمکش میں گزری، جوڑ توڑ اور حساب لگانے میں مصروف، کبھی کچھ کم کرتی، کبھی کسی چیز کی کوالٹی پر کمپرومائز کرنے کا سوچتی، مگر پوری رات کی مغز ماری کے بعد بھی دھاک کے تین پات۔ فجر کی نماز پڑھ کر رب کے آگے مسئلہ رکھا اورپرسکون ہوکر سوگئی۔

صبح ناشتے سے فراغت کے بعد معمول کے کام سمیٹے تو زبیدہ خاتون کے پاس گئی اور اپنا مدعا ان کے گوش گزار کیا۔ مدعا سن کر پہلے تو انھوں نے نحوست سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا، حمنہ زمین میں گڑ گئی ، پھر حاتم طائی کی ہم نشین بنتے ہوۓ اپنی تجوری میں سے ایک ہزار نکال کر اسے دیا اور جتایا کہ حمنہ کے ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے انھوں نے اسے پہلے ہی پیسے زیادہ دئیے تھے، مگر وہ چونکہ ان کے خاندان کی نہیں تو اسے ان کے بیٹوں کے محنت سے کماۓ گئے پیسوں کی قدر ہی نہیں، کس طرح انھوں نے بیوگی میں دال روٹی کھا کرﷲ کا شکرادا کیا اور پیسے بچا بچا کر یہ گھر بنایا ہے، جس میں آج حمنہ راج کررہی ہے۔ حمنہ آنکھوں میں حیرانگی لئے ان کے اشادات سن رہی تھی، جو صرف مفروضوں پر مبنی تھے، یہ گھر حمزہ لوگوں کووراثت میں ملا تھا اور ہر ماہ گھر کے راشن کے لئے پچاس ہزار مختص تھے، جس میں گوشت اور روز کی سبزی سب الگ تھا۔

حمنہ ان کے ذہن کو سمجھنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی کہ اس کی کزن کا فون آگیا جو گھر کی گروسری کر نے جا رہی تھیں اور حمنہ کے ساتھ کی خواہاں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، حمنہ کو فجر میں مانگی دعا کی اتنی جلدی قبولیت کی امید نہیں تھی، اس کا یقین کامل تھا کہ مدد تو آۓ گی ، سب سے بڑی مدد تو ساس صاحبہ نے ہزار روپے کی صورت میں کی تھی۔ حمزہ کو کزن کے ساتھ جانے کا بتا کر جانے کی تیاری کرنے لگی۔

راستے میں کزن کو اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا جسے انھوں نے چٹکیوں میں اڑایا اور کہا کہ اس طرح کے حربے ان کی ساس نے بھی کئی بار صرف اس لئے آزماۓ کہ وہ سب کے سامنے انھیں نا اہل ثابت کر کے، گھر گر ہستی میں ناکام کرسکیں، ان کے لئے نئے طرح کے محاذ کھولے جائیں ۔ آخر وہ ایسا کیوں چاہتی تھیں؟ حمنہ نے معصومیت سے پوچھا؟ “ارے پگلی میں ان کے بیٹے کی پسند تھی انھیں ڈر ہے کہ ان کا بیٹا ان سے دور نہ ہوجاۓ اس لئے اس طرح کی حرکتیں کر جاتی ہیں۔ تو آپ ان کی اس طرح کی باتوں پر قابو کس طرح پاتی ہیں؟” حمنہ کی آنکھوں میں ڈھیروں سوال تھے، “ارے پگلی جیسے کو تیسا!” کزن نے سسپنس پھیلانے کی کوشش کی ۔۔۔ بتائیں ناں میں اس مشکل سے کیسے نکلوں؟ حمنہ نے بے چارگی سے پوچھا۔ “شہزادی! بیٹوں کی مائیں بہت تنگ دل اور شکی مزاج ہوتی ہیں، وہ بہوؤں کو دشمن نہیں چڑیلیں سمجھتی ہیں جو ان کے بیٹوں کا خون چوستی ہیں، اور تو اور ہم ان کے بیٹوں کو ان سے دور لے جائیں گی، وہ ہم سے خوف زدہ ہوتی ہیں اس لئے اس طرح کی باتیں یا حرکتیں کر جاتی ہیں، دیکھو حمنہ ہم پڑھے لکھے ہیں ہم پر ذمے داری زیادہ ہے، ہمیں ان کے دل سے یہ خوف ختم کرنا ہوگا، ان کی کڑوی باتوں کی تلخی پر اپنے پن کی پھوار برسانی ہے تاکہ گھر کا ماحول صحیح رہے اور ہمارا شوہر ماں اور بیوی کے مابین فٹ بال نہ بن جاۓ جس کی نہ زندگی سنورسکے اور نہ آخرت”۔ کزن نے مدبرانہ انداز میں جواب دیا۔

“اب مجھے ذرا مسئلے کا حل بھی بتائیں کہ اس مشکل سے کیسے نکلوں؟” حمنہ نے بے صبری سے پوچھا،

“صبر بنو صبر! دیکھو حمزہ ماشاﷲ اچھا کماتا ہے جب خریداری کی باری تمہاری ہو تو الگ سے کچھ پیسے ساتھ لے آؤ، اس سے تمہارے رزق میں بھی برکت آۓ گی اور تم ساس کے دل سے خوف کم کرنے میں بھی کامیاب ہوجاوگی، گھر کا ماحول صحیح ہوگا تو رفتہ رفتہ ساس کے دل سے بھی خو ف کم ہوگا اور تم میاں اور ساس دونوں کے دل میں گھر بنالوگی”۔ حمنہ نے کزن کی بات پلو سے باندھ لی اور دل میں ﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بہترین مددگار بھیجا۔

وباء کی وجہ سے لوگوں میں خوف کو باآسانی د یکھا جا سکتا تھا مگر سب کچھ اپنی فکر اور ذخیرہ اندوزی کی روش تو کرونا کی وباء سے بھی زیادہ تیزی پاکستانیوں میں سرائیت کر تی جارہی تھی، مارٹ میں یوں محسوس ہورہا تھا کہ آج کے بعد کچھ نہیں ملے گا بس لوٹ لو۔ فہرست کے مطابق تمام چیزیں لیں اور بل ادا کرنے کے بعد دونوں گھر کی طرف روانہ ہوئیں ۔ “دیکھو حمنہ ہمارا شوہر صرف ہمارا شوہر نہیں ہوتا وہ ماں کا بیٹا، بہن کا بھائی، دادی کا پوتا، نانی کا نواسا، چچا کا بھتیجا اور خالہ کا بھانجا بھی ہوتا ہے، شوہر پر حق جتاؤ مگر دوسروں کے حق صلب مت کرو، جس گھر میں بہو بن کر آئی ہو وہ تم سے پہلے ساس کا گھر ہے اس گھر میں ساس نے تمہیں شریک کیا ہے اب اگر وہ شراکت نہیں برداشت کر رہی تو تم اس کے شریک کرنے کو یاد رکھو اور شراکت کے لئے پہلا قدم بڑھاؤ، ماں صرف ماں ہوتی ہے اس کے ساس کے چوغے کو اپنی محبت اور اپنے پن سے نوچ پھینکو، سوچ کا زوایہ بدلو زندگی آسان ہوجا ئے گی”۔ کزن کی محبت سے سمجھائی گئی باتیں حمنہ کے دل کو چھو گئیں۔

4.7 3 votes
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments