بہو رانی یا نوکرانی…؟

بہو رانی یا نوکرانی…؟

سعد پڑھا لکھا اور باشعور لڑکا تھا، نیک اور دین دار بھی، والدین کی پہلی اولاد تھا اس لئے ذرا نازک مزاج اور موڈی تھا۔ اس کی اماں روایتی قسم کی خاتون تھیں، جنھیں یہ لگتا تھا کہ ساری زندگی ان کے سسرال والوں نے ان پر ظلم کئے، ان کے شوہر جو ساری زندگی دال روٹی کے چکر میں رہے اس لئے انھیں وقت نہیں دے سکے، حالانکہ ان کے اوپر تلے تین بچے تھے۔ اور وہ شوہر کی محبت اور نہیں پال سکتی تھیں اس لئے مزید بچوں کی ماں بننے سے انکار کرتے ہوۓ آپریشن کروالیا تھا، تنگ دل تو اتنی تھیں کہ لمحوں کے لئے بھی کسی کا وجود بھی گھر میں برداشت نہیں کرسکتی تھیں، ان کے شوہر کے پیسے پر صرف ان کا حق تھا۔ بچوں کو مظلومیت کے قصے سنا سنا کر اپنا ہم نوا بنا لیا تھا۔ ان کی ساس جو کہ ان کی خالہ بھی تھیں ان کی شادی کے چند سال بعد خالقِ حقیقی سے جا ملی تھیں، ایک نند تھیں جن کی شادی کی عمر گزر گئی تھی ، وہ ہر وقت خود کو بھائی بھابھی پر بوجھ سمجھتی تھیں اس لئے بھابھی کے گھر کو سنبھالنا انھوں نے اپنی ذمے داری سمجھ لیا تھا۔ وہ تو شاید ساری عمر بھابھی کی وفاشعار رہیتیں مگر ﷲ کو شاید ان کا صبر پسند آگیا تھا اس لئے عمر کے آخری حصے میں ان کی بھی شادی ہوگئی تھی ،ظلم کہاں ہوا سمجھ نہیں آیا، مگر اس سب کے باوجود وہ خود کو مظلوم سمجھتی تھیں، اولاد ان کی مٹھی میں تھی۔

ساری زندگی شوہر کی کمائی دونوں ہاتھوں سے لٹائی، میاں صاحب جہاں کاروبار جماتے وہیں گھر کی ازسرنو سیٹنگ کا بھوت ان پر سوار ہوجاتا، کبھی اولاد کی تعلیم کے بے حساب اخراجات ، گھر بھر میں بے حساب غلہ آتا جو بے حساب ضائع کیا جاتا۔ گھر میں اتنی کثرت کے باوجود مہمان نوازی سے اجتناب کیا جاتا تھا۔ اس فضول خرچی کی وجہ سےمیاں صاحب بڑھاپے میں بھی دھکےکھارہے تھے۔

سعد کو ابرش سے محبت ہوگئی جو سرکاری کالج میں انگریزی کی معلمہ تھی، وہ دھیمے مزاج کی سلجھی ہوئی لڑکی تھی ، پڑھے لکھے خاندان سے تھی، باشعور تھی اس لئے سمجھتی تھی کہ سعد کے ساتھ زندگی آسان نہیں ہے. چونکہ محنتی تھی اور کفایت شعار بھی اس لئے پر امید تھی کہ وہ اور سعد مل کر خوشیوں بھرا آشیانہ بناہی لیں گے۔ سعد کے والدین ابھی سعد کی شادی کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر کماؤ پوت بہو تو اس لاٹری کے مانند تھی جس کا ٹکٹ بھی انہوں نے نہیں خریدا تھا، اس لئے اس بہترین موقعے کو گنوانا کفرانِ نعمت سمجھتے ہوۓ سعد کی بات مان کر اس پر احسان بھی کیا اور سعد کے ساتھ ساتھ اپنا مستقبل بھی محفوظ کیا۔

ابر ش سعد کی ہمراہی میں خوش تھی، زندگی محبت کے نغمے سنا رہی تھی ، شوہر کا پیار پھوار کی طرح وجود کو بگھو رہا تھا، سسرال والے ہر وقت واری صدقے جاتے تھے۔ سسرال میں بھی سب ٹھیک تھا، اتنا ٹھیک کہ کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتا تھا، مگر ابرش فی الحال خوش باش تھی، مسکراہٹ اس کے وجود کا حصہ بن گئی تھی۔ راوی نے زندگی میں چند لمحوں کا سکون لکھا تھا۔

ساس نے پندرہ دن میں ابر ش سے میٹھا پکوا کر اسے باورچی خانے کی نظر کر دیا، اب باورچی خانہ ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا تھا، صبح کے ناشتے سے کام شروع ہوتا اور رات کے قہوےکے ساتھ ختم ہوتا۔ صبح ناشتہ سب کی پسند کے مطابق بنتا، کوئی لسی پیتا تو کوئی چاۓ ، کسی نے پر اٹھا کھانا ہوتا تو کسی نے دلیہ ، کوئی ہاف فرائی کھاتا تو کسی نے آملیٹ یا کسی کو رات کا سالن چاہیئے ہوتا تھا، ناشتے کے بعد ساس اور باقی گھر والے سو جایا کرتے تھے اور ابرش برتن دھو کر ماسی سے کام کروانے کی پابند تھی ، اس سارے کام سے فارغ ہوتے ہی دوپہر کے کھانے کا وقت شروع ہوجاتا تھا۔ دوپہر میں دال چاول کے ساتھ سبزی اور گوشت کا سالن لازمی بنتا تھا، کباب تل لئے جاتے تھے جو ہر ہفتے بنتےتھے ، چار طرح کی چٹنیاں اور دو طرح کے سلاد ، چاولوں کے ساتھ ہری مرچیں روزانہ فرائی کی جاتی تھیں کہ ساس اس کے بغیر کھانا نہیں کھا سکتیں تھیں، میٹھے میں قوامی سویاں دوپہر کا لازمی جز ہوتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد تمام گھر والے قیلولہ کرتے اور ابرش بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ برتن دھوتی اور کچن سمیٹتی اور کمرے کا رخ کرتی۔ جب تک اس کی آنکھ لگتی ساس صاحبہ اسے پکارتی ہوئی کمرے میں گھس آتیں کہ اب شام کی چاۓ کا وقت ہوگیا ہے۔ چاۓ کی تیاری سے پہلے رات کا میٹھا چڑھا دیا جاتا تاکہ رات تک ٹھنڈا ہوجاۓ۔ شام کی چاۓ کے ساتھ کبھی سینڈوچ تو کبھی پکوڑے، کبھی پاستہ یا کبھی پزا، پیٹیز یا سموسے تو لازمی تھے، کوئی ٹی بیگ والی چاۓ پیتا تو کوئی دم والی، کوئی اسڑانگ تو کوئی دودھ پتی۔ شام کی چاۓ جلدی جلدی ختم کر کے ابرش رات کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتی تھی۔ رات میں چکن کی کڑھائی یا ہانڈی کے ساتھ بکرے کے گوشت کا شوربے والا سالن بنتا تھا، سبزی دوپہر والی ہوتی ، میٹھے میں کھیر ، لبِ شیریں، کسڑڈ، ٹرائفل وغیرہ میں سے ایک چیز لازمی ہوتی، ابرش سے پہلے روٹیاں ماسی دن میں بناکر چلی جاتی تھی مگر کیونکہ ابرش پھلکے بناتی تھی اس لئے یہ بھی اس کے ذمے ہوگئی تھی، کھانا کھانے کے بعد نند برتن سمیٹ دیا کرتی تھی اور ابرش قہوہ بنانے کے ساتھ دودھ گرم ہونے رکھ دیا کرتی تھی کہ سب نے سونے سے پہلے دودھ پینا ہوتا تھا۔ سونے سے پہلے سب کو دودھ دینے کے بعد رات کا ایک ایک برتن دھو کر جب وہ کمرے کا رخ کرتی تو اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہوتا تھا۔ ابرش شر ما حضوری میں خندہ پیشانی سے سب کر رہی تھی کہیں اس کے دل میں امید تھی کہ جب اس کا کالج شروع ہوگا تو سب ٹھیک ہوجاۓگا، مگر وہ اس ساری مشقت سے ذہنی اور جسمانی طور پر تھک گئی تھی۔

سونے پر سہاگہ سعد کا رویہ تھا جو اسے روز انہ یہ جتاتا کہ وہ اس گھر کو اپنا گھر نہیں سمجھتی ہے اور روز صبح کے ناشتے اور شام کی چاۓ پر اس کی ماں کو اسے یاد دلانا پڑتا ہے کہ یہ اس کی ذمے داری ہے، آخر وہ خود یہ کام کیوں نہیں کرتی، اس کی امی بے چاری کب تک اسے اس بات کا احساس دلائیں گی؟ ابرش صرف سنتی رہتی تھی اور سمجھنے کی کوشش کر تی تھی، یہ کیا ہورہا تھا، اور کیوں ہو رہا تھا؟ جتنا کھانا یہاں ایک دن میں بنتا ہے اتنا کھانا ابرش کے ہاں پورے ہفتے میں بنتا تھا، وہ لوگ کھانا زندہ رہنے کے لئے کھاتے تھے جبکہ یہاں کھانے کے لئے زندہ رہا جاتا تھا، کھانا اور سونا ان سب کا مشغلہ تھا۔

سعد اپنے بھائی اور والد کے ساتھ مل کر کنسڑکشن کا کام کیا کرتاتھا، سسر صاحب ہی کام کے لئے بھاگ دوڑ کیا کرتے تھے ، جب کام مل جاتا تو سعد اور اس کا بھائی ان کی معاونت کرتے لیکن کام ڈھونڈنے کی ذمے داری ان کی تھی ، کیونکہ ان کی والدہ نے لڑکوں کو اپنی طرح کاہل اور سست سا ہی بنادیا تھا ، اس لئے کبھی اتنا کام ہوتا کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی اور کھبی اتنا وقت کہ مکھیاں ماری جاتیں تھیں۔

ﷲ ﷲ کر کے ابرش کی چھٹیاں ختم ہوئیں اور اس نے کالج جانا شروع کیا، شادی کے بعد پہلی بار کالج جارہی تھی اس لئے ذرا دیر سے آنکھ کھلی، جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر تیار ہوئی اور سعد نے اسے کالج چھوڑ دیا، سہیلیاں ذومعنی باتیں کر کے اسے چھیڑ رہی تھیں، کوئی سسرال میں زندگی گزارنے کے گُر سکھا رہا تھا، تو کوئی سسرال والوں کی چالاکیوں کا ذکر کر رہا تھا، ہنسی مذاق میں کیسے وقت گزرا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مقررہ وقت پر سعد لینے نہیں آیا، اس نے سعد کو کال ملائی تو اس کا نمبر بند تھا، وہ تھوڑی پریشان ہوئی فوراً ساس کا نمبر ملایا انھوں نے کال پک نہیں کی، فرداً فرداً تمام گھر والوں کو کال کی مگر دھاک کے تین پات، خیر کریم کر کے گھر کی طرف روانہ ہوئی ۔

گھر پہنچی تو گیٹ دیور نے کھولا، ابرش نے سعد کا پوچھا تو کندھے اچکاۓ اور آگے بڑھ گیا، کمرے میں آئی تو سعد آرام سے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا، غصہ بہت آیا مگر خاموش رہی اور غصے میں وہ بھی سوگئی ۔ شادی کے بعد پہلی بار دوپہر میں گھوڑے بیچ کر ایسا سوئی کہ ہوش ہی نہیں رہا، جب آنکھ کھلی تو اندھیرا ہوچکا تھا اور سعد بھی کہیں نہیں تھا۔ اتنی دیر سونے پر شرمندگی ہوئی اور جلدی سے تیار ہوکر ساس کے کمرے کی طرف گئی ، تمام گھر والے وہیں موجود تھے اسے ماحول میں موجود تلخی محسوس ہوئی ، سلام کر کے بیٹھ گئی ، ساس نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور نحوست سے منہ پھیر لیا، ابرش نے یہ نفرت ان کے تمام بچوں کی نظر میں بھی محسوس کی، سسر صاحب اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ ماں اور بچے آپس میں مصروف تھے اور ابرش کے وجود کو یکسر فراموش کردیا گیا تھا، وہ خاموش تماشائی بنی سب کا منہ دیکھتی رہی مگر کسی نے اس کی طرف نظرِ خاص نہیں ڈالی، اسے سب سے زیادہ تکلیف سعد کے روئیے کی تھی، آخر اس کے صبر کی حد ختم ہوگئی اور وہ آنکھوں میں آنسو لئے وہاں سے اٹھ گئی ، کمرے میں آکر کافی دیر تک روتی رہی، جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اپنی امی کو کال کی اور ان سے روز مرّہ کی گفتگو کرنے لگی ، اتنے میں دیور اسے بلانے کے لئے آیا ، فون رکھ کر وہ ساس کے کمرے کی طرف گئی تو سسر صاحب اس سے مخاطب ہوئے، ”ہم بہت پیار سے تمہیں اس گھر میں بیاہ کر لاۓ تھے کہ تم اس گھر کو اپنا سمجھو گی مگر افسوس کہ تم نے ایسا نہیں کیا“سسر نے افسردہ ہوکر کہا۔ مگر انکل میں نے ایسا کیا کردیا؟ اس نے حیرت سے پوچھا، ”صدقے جاؤں بہو تمہاری معصومیت پر“ ساس نے اونچی آواز میں کہا، ”بیگم میں بات کروں یا آپ بات کریں گی“ انھوں نے بگڑتے ہوۓکہا، ساس نے منہ پھیر لیا۔

”بہو آج نہ تم نے ناشتہ بنایا ، نہ دوپہر کا کھانا ، شام کی چاۓ اور نہ ہی رات کا کھانا“ انھوں نے تحکمانہ انداز میں پوچھا، ”انکل میں کالج گئی تھی“ اس نے آہستگی سے کہا، ”واہ ! بہو واہ، اگر تم کالج گئی تو ہم سب فاقوں مریں گے کیا؟“ ان کی آواز میں تلخی گھل گئی۔ ابرش نے مدد طلب نظروں سے سعد کی طرف دیکھا مگر وہ یوٹیوب پر کوئی ویڈیو دیکھنے میں مصروف تھا، اسے ان سب کے درمیان اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا، آنکھوں میں آنسو چھپانے کے لئے اس نے نظریں جھکا لیں۔

”خیر بہو صبح سے ہم سب نے بچا کھچا کھا کر گزارا کر لیا مگر اب بھوک سے سب کا برا حال ہے اس لئے اب ہم کھانا آڈر کر دیتے ہیں کیونکہ یہ آپ کی ذمے داری تھی اور آپ نے پوری نہیں کی اس لئے اب بلِ آپ ہی دیں گی“ اپنا حکم سنا کر وہ مسکراۓ، ابرش کے پاس اثبات میں سر ہلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

جب آڈر آیا تو اسے بلایا گیا اور اس نے -/9600 کا بل دیا اور سب نے اس لذیز کھانے کو بہت رغبت سے کھایا۔

2 4 votes
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments