…حقیقی خوشی
حقیقی خوشی…
شادی کے بعد فاطمہ کی سسرال میں پہلی عید تھی، رمضان میں طرح طرح کے پکوان بنا کر سب کے دل جیت چکی تھی۔ ساس اور سسر اس کے معترف ہوچکے تھے اور چھوٹی نندیں اس کی گرویدہ، جیٹھانی تو سب کام اس پر ڈال کر چین کی بانسری بجا رہی تھی۔
عید کے قریب آتے ہی گھر میں عید کی دعوت کے بارے میں باتیں شروع ہو گیئں ، ساس صاحبہ کرونا کی وباء کے دوران باہر سے کھانا پکوانے کے حق میں نہیں تھیں، بیٹوں کا خیال تھا کہ وباء کی وجہ سے دعوت نہ ہی کی جاۓ۔ ساس خاندانی روایت کی علمبردار تھیں، روایت سے منہ موڑنے کو تیار نہ تھیں۔ سسر ساس کے ہمنوا تھے۔
ساس خود تو شوگر اور بی پی کی مریضہ تھیں، نندیں پڑھائیوں میں مصروف تھیں اس لئے گھرداری میں بالکل کوری۔ جیٹھانی صاحبہ معصومیت کی دیوی بنی سب کی باتوں سے بے خبر موبائل پر “پیار کے صدقے ” دیکھنے میں مصروف۔ ساس اشارے کنائیوں میں بڑی بہو کو ان کی ذمےداریوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، مگروہ یمنا زیدی کی اداکاری پر فریفتہ، ساس نے بھیا کی توجہ بیگم کی عدم دلچسپی کی طرف کروانے کی کوشش کی تو انھوں نے یوں کندھے اچکاۓ کہ وہ بھابھی کو کچھ کہنے سے قاصر ہیں، سسر صاحب زیر لب مسکرانے لگے اور ساس صاحبہ پہلو بدل کے رہ گئی مگر بہو صاحبہ کی بے نیازی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔
فاطمہ کے لئے یہ سب نیا تھا، ان کے گھر میں اگرچہ عید پر لمبی چوڑی دعوت نہیں ہوتی تھی مگر عید کے دنوں میں مہمانوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی اور مہمانوں کی تواضع گھر کے ہر فرد کی ذمےداری ہوتی تھی۔ اماں میٹھا بنا لیا کر تی تھی تو باقی کام گھر میں موجود بھابھیاں آپس میں مل جل کر خوشی سے کر تی تھیں۔ باقی ماندہ کام فاطمہ اور اس کی بہن نپٹاتی تھیں۔ عیدکی خوشی ہمیشہ سب کی سانجھی ہوتی تھیں مگر یہاں گنگا الٹی بہتی محسوس ہو رہی تھی۔ فاطمہ چوں کے حساس اور شرمیلی مزاج کی لڑکی تھی اس لئے کچھ نہ کہہ سکی اور سسرال کے رنگ ڈھنگ دیکھ رہی تھی۔
رات میں فیضان سے گھر میں ہونے والی دعوت کے متعلق پوچھنے لگی تو فیضان نے بتایا کہ یہ دعوتیں ان کی دادی جان کے زمانےسے ہورہی ہیں اور پورا خاندان مدعو ہوتا ہے، پہلے اس کی ساس دعوت میں کھانا خود پکایا کرتی تھی، مگر چند سالوں سےکیونکہ اب ان کی صحت اس قابل نہیں رہی تو کھانا پکوان سینڑ سے بنوایا جاتا ہے۔ بھا بھی نے کبھی اس ذمے داری میں اپنا پن دکھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اب تو بھیا کو بھی یہ دعوت پیسے کا ضیاع لگتا ہے۔ اس لئے ساس صاحبہ کو پکوان سینٹر کی خدمات حاصل کرنی پڑی جس پر وہ خوش تو نہیں تاہم اس بات سے مطمئن ہیں کہ ساس کی روایت کو اپنے جیتے جی مردہ نہیں ہونے دیں گی۔
اگلے دن سحری کے بعد باورچی خانہ سمیٹ کر فاطمہ نے ساس کے کمرے کا رخ کیا جو نماز سے فارغ ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے میں مصروف تھیں، فاطمہ خاموشی سے ان کے سامنے بیٹھ گئی، فاطمہ کو دیکھ کر ساس نے قرآن پاک بند کیا اور دعا کےلئے ہاتھ بلند کئے، دعا سے فارغ ہو کرفاطمہ کی طرف متوجہ ہوئیں، فاطمہ نے ہچکچاتے ہوۓ دعوت میں کھانا بنانے کی ذمےداری اپنے سر لینے کی بات کی تو ساس کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، بڑی بہو کی بے توجہی کے بعد بہوؤں سے اس روایت پر عمل کرنے کی ان کی امید دم توڑ چکی تھی، فاطمہ کی بات سن کر خوش بہت ہوئیں، زمانہ شناس تھیں ،فاطمہ کے اپنے پن کی قدردان تھیں، مگر جانتی تھیں کہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی فاطمہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی تھی۔ اتنی بڑی ذمےداری اگر پوری نہ کرسکی تو اس کا دل چھوٹا ہوگا اور وہ یہ نہیں چاہتی تھیں، فاطمہ نےبہت تھوڑے وقت میں ان کا دل جیت لیا تھا۔ اس کا ماتھا چومتے ہوۓ اسے ہمیشہ سدا سہاگن رہنے کی دعا دینے کے بعد اسے سمجھانے لگیں کہ اگلےسال دعوت کر لیں گے، خاندان وا لے ان کے مزاج آشنا ہیں اور ان کی مجبوری کو سمجھیں گے۔ ان کی محبت دیکھ کر فاطمہ انھیں کچھ نہ کہہ سکی مگر دل میں ارادہ کر چکی تھی کہ اس گھر کی روایت میں کرونا کی وباء کو اثر انداز نہیں ہونے دے گی۔
وباء کی وجہ سے کیونکہ ورک فرام ہوم چل رہا تھا تو اس نے فیضان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش شروع کی۔ پہلے پہل تو فیضان نے اسے سمجھایا کہ رہنے دو جیسے چل رہا ہے چلنے دو مگر فاطمہ کے پختہ ارادے کو دیکھتے ہوۓ ماں سے بات کرنے کی ہامی بھر لی۔ شوہر کو راضی کر نے کے بعد اس نے نندوں کی حمایت حاصل کی، نندوں نے بھی ہر ممکنا مدد کی پیش کش کی جو فاطمہ کے اچھے اخلاق کی جیت تھی۔
جیٹھانی صاحبہ نے سنا تو ششدر رہ گئیں، پہلے تو اسے ڈرایا کہ اتنا کام ناممکن ہے اور یہ کہ سب کے معیار کا کھانا بنانا ناممکن ہے، کیونکہ ان کے بقول ان سب کی زندگی کا مقصد صرف کھانا ہے، جب فاطمہ نہ مانی تو صاف کہہ دیا کہ ان سے کسی بھی کام کی امید نہ رکھی جاۓ، ان کی بات پر فاطمہ نے سر تسلیم خم کیا۔ سسر بات سن کر بہوکے گرویدہ ہوگئے کیونکہ یہ روایت ان کی والدہ سے منسوب تھی۔ فاطمہ نے اپنی پوری تیاری کرلی تھی اب صرف ساس سےبات کرنا باقی تھی۔
رات جب سب کھانے کے بعد قہوہ پینے میں مصروف تھے تو فیضان نے بات شروع کی۔ اماں شش وپنج کا شکار ہوگئیں، سسر اور نندوں کو جب بہو کا ہمنوا دیکھا تو فاطمہ کی سمجھداری کی قائل ہوگئیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ دو دن پہلے سے ہی دعوت کی تیاری شروع کردی جاۓ گی۔ کباب کا مصالحہ ساس کو پیس کے دے دیا جاۓ گا وہ کباب بنا کر فریز کردیں گی، کھیر چاند رات کو سسر صاحب ساس کی معاونت میں بنا لیں گے، بریانی کا مصالحہ بناکر فریز کر لیا جاۓ گا، چکن کڑاہی اس دن ہی تازہ بنائی جاۓ گی، سلاد اور رائتہ نندیں بنالیں گی اور روٹیاں تندور سے آئیں گی۔ وعدے کے مطابق جیٹھانی نے کہیں بھی مدد کی پیش کش نہیں کی۔
گھر میں دعوت کی تیاری زور وشور سے جاری تھی، پورے گھر میں آئی پھرتی باآسانی محسوس کی جاسکتی تھی۔ ساس اور سسر تو اپنے جوانی کے دنوں کی طرح مصروف اور پرجوش تھے، نندیں بھی سیکھنے کے لئے کمر بستہ، لگتا تھا کہ سب یک جان وقالب ہوگئے ہیں۔ ماں باپ کو خوش دیکھ کربیٹے بھی مسرور تھے۔ بھیا تو برملا فاطمہ کی تعریف بھی کر چکے تھے، فیضان نگاہوں ہی نگاہوں میں کئی بار بیوی کی نظراتارچکا تھا۔ جیٹھانی صاحبہ ماسی کے ساتھ مل کر گھر کے کونے کونے کو چمکانے میں مصروف۔
عید کا سورج اپنی پوری رعنائی کے ساتھ طلوع ہوا، فاطمہ اور جیٹھانی صاحبہ نے مل کر ناشتہ تیار کیا، گھر کے مرد جب نماز پڑھ کر آۓ تو خواتین زندگی کے تمام تر لوازمات سمیٹے ان کی منتظر تھیں۔ سسر نے سب بچوں کو عیدی دی، ساس نے بچوں کو ایک ساتھ گلے لگا کر خود میں سمونے کی کوشش کی تو سب نے ہمیشہ ساتھ رہنے کی دعاکی، سسر نے نم آنکھوں سے شریک حیات کو دیکھا اوردل ہی دل میں رب کے شکر گزار ہوۓ۔ فیضان اور نندوں نے یہ سب مناظر اپنے موبائل میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیے۔ پرتکلف ماحول میں ناشتہ ہوا، سب نے عید کی حقیقی خوشی محسوس کی۔ پھر سب دعوت کی تیاری میں جت گئے۔
شام سات بجے سب گھر والے تمام انتظامات مکمل کر کے مہمانوں کے منتظر تھے۔ رفتہ رفتہ گھر مہمانوں سے بھر گیا، سب خوش گیپوں میں مصروف تھے۔ کھانا پرتکلف ماحول میں کھایا گیا، سب نے کھانے کی بہت تعریف کی۔ تعریفیں سن کر فاطمہ خود کو آسمان میں اڑتا محسوس کر رہی تھی، اور اس نے ﷲ کا شکر کیا جس نے اسے سرخرو کیا اور اس کے ماں باپ کی تربیت پر حرف نہیں آنے دیا۔