Husband and SusralLife in Susral

قسمت والی ٹھوکریں۔۔۔ دوسری اور آخری قسط

[ پچھلی قسط 01 ]

قسمت والی ٹھوکریں۔۔۔ دوسری اور آخری قسط

گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔

حنا عمیر کے رو ئیے سے دل برداشتہ ہوگئی تھی، ساس سسر نے بھی مشکل کے اس وقت میں بہو پر بیٹے کو ہی فوقیت دی تھی۔ ساس کھبی ماں نہیں بن سکتی تو سسر بھی باپ کی طرح سائبان نہیں ہوتا، حنا نے بیٹا بن کر سسرال کے مسائل حل کئے تھے۔ نند کی شادی پر اپنا زیور اس لئے پیش کیا کہ عمیر کو قرضہ نہ لینا پڑے، گنجائش نہ تھی پھر بھی نند کی خواہش پوری کرنے کے لئےادھار لے کر اس کا مایوں کیا۔ دیور کو کینڈا بھیجنے کے لئے بینک سے اپنے نام پر قر ضہ لیا کہ بڑی بھابھی ماں کی جگہ ہوتی ہے۔ حنا نے تو بیٹا بن کر مسائل حل کئے مگر کوئی اسے بیٹا تو کیا اپنا بھی نہیں سمجھ رہا تھا، زندگی کی تپتی راہوں میں کوئی اس کے لئے سایہ دیوار بننے کو تیار نہ تھا، عمیر سے مار کھا کر جسم کے نیل اس لئے چھپانے پڑتے تھے کہ اگر وہ تماشہ بن گئی تو تماش بین ہزاروں۔

عمیر کے شب وروز میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ اس نے حنا کے وجود کو یکسر فراموش کر دیا تھا وہ عاشق بنا معشوق کی خوشنودی کے لئےگھنگھروں باندھے ناچ رہا تھا، ہوش وحواس کھوۓ محبو ب کے ساتھ اور تصور محبوب میں مدہوش رہتا ہے۔ ”تم میرے پاس ہو تے ہو گویا جب کوئی نہیں ہوتا “ مومن خان مومن کے شعر کی عملی تصویر بنا پھررہا تھا۔

حنا شوہر کے روئیے پر دن رات کُڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لئے ﷲ سے لو لگا لی تھی اور خاموشی سے ربِ محمد ﷺ کے کُن کی منتظر تھی۔ دن اور رات اپنی بیزارئیت کے ساتھ آگے بڑھتے جارہے تھے۔

حنا کچھ دنوں سے محسوس کررہی تھی کہ عمیر کچھ پریشان سا لگ رہا تھا، الجھا الجھا رہتا تھا، فون پر بھی جھگڑتا رہتا تھا، سگریٹ پھونکتا رہتا تھا، ماں کے پاس افسردہ بیٹھا رہتا تھا۔ مگر حنا سے اب بھی دور دور تھا اس طرح اجتناب کرتا تھا کہ جیسے وہ اچھوت ہے، اس طرح کی بے قدری پر حنا کا دل خون کے آنسو روتا رہتا تھا لیکن وہ خاموشی کی ردا اوڑھے ﷲ کی صابر بنی رہتی۔ لیکن عمیر کی پریشانی میں حنا پر یشان تھی اور دعا گو تھی کہ ﷲ اس کی پریشانی دور کر دے۔

دن بھر کی تھکی ہاری حنا سو رہی تھی کہ اچانک کسی کے رونے کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی، پہلے پہل تو کچھ سمجھ نہ آیا ، اندھیرے کمرے میں جب آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو نظر آیا کہ عمیر جاۓ نماز پر بیٹھا آہ وبکاکر رہا ہے، زور وشور سےرورہاہے، اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا، رب کے آگے ہاتھ پھیلاۓ نجانے کیا مانگ رہا تھا۔ حنا نے پہلی بار عمیر کو اتنا پریشان دیکھا تھا اس کا دل انجانےسے خوف کا شکار ہوا، وفا شعار بیوی تھی اس کو پریشان دیکھ کر رہا نہ گیا اس کے ہاتھ تھام کر پوچھنے لگی ”عمیر بتائیں کیا ہوا ہے؟ اتنا کیوں رو رہے ہیں آپ؟ بتائیں ناں!”

”دفع ہوجاؤ یہاں سے منحوس عورت۔۔۔ تمہاری نحوست نے کہیں کا نہیں چھوڑا مجھے! زندگی برباد کردی تم نے میری!“ عمیر نے حنا کو زوردار دھکا دیتے ہوۓ کہا، سگریٹ کی ڈبی اٹھائی اور گھر سے باہر نکل گیا۔ حنا دم سادھے بیٹھی رہی، اس کی وفا کو ایک بار پھر اس کے منہ پر زور دار طمانچےکی طرح مار دیا گیا، ایک ایسا طمانچہ جس کی گونج نے حنا کی ذات کو زلزے کے حوالے کردیا تھا، کبھی کھبی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کی ذات پابند ِ سلاسل ہے اور وہ اس سلاسل کی قید میں اس پرندے کی طرح ہے جو دروازہ کھلا دیکھ کر بھی نہیں اڑتا کیونکہ وہ اس قید میں راضی بہ رضا ہے یا زندگی کی کوکھ اب بھی امید کو جنم دینے کو تیار تھی۔ اپنی وفا کی گھڑی سر پر رکھے حنا ایک بار پھر پوری امید کے ساتھ اٹھی اور اپنی زندگی کا مقدمہ ربِ کائنات کے حضور رکھ کر صبر کا لبادہ اوڑھے زندگی کے سامنے سینہ سُپر کھڑی ہوگئی۔

عمیر کو گئے کافی دیر ہوگئی تھی، وہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلا تھا اب صبح کی روشنی چاروں طرف پھیل رہی تھی، حنا کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی، ساس سسر سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی، دعاؤں کا ورد کرتی ادھر سے ادھر چکر لگارہی تھی۔ ”ارے بہو کیا پریشانی ہے کیوں یہاں سے وہاں چکراتی پھر رہی ہو؟“ اس کو چکر لگاتے دیکھ کر ساس نے چُھبتے ہوۓ لہجے میں پوچھ ہی لیا، ”اماں عمیر فجر کے پہلے سے گھر سے نکلے ہیں اب تک نہیں لوٹے، نجانے کہاں گئے ہیں، میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے ہیں“ حنا نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔

”ارے نگوڑ ماری تونے ہی کچھ کہا ہوگا، تجھے سکون کہاں ہے؟ زندگی عذاب بنادی میرے چاند سے بیٹے کی، ارے کہیں مار کے تو نہیں پھینک آئی میرے بچے کو؟ بتا۔“ ساس نے اس کو بالوں سے پکڑ کر اپنے جانب کھنیچا اور اس کے چہرے پر تھپڑ مارا، حنا اپنا بچاؤ بھی نہ کر سکی۔ شور کی آواز سن کر سسر بھی باہر آۓ اور صورتحال جان کر پریشان ہوگئے۔” بہو تم نے پہلے کیوں ناں بتایا جب وہ گھر سے جارہا تھا؟ جب اس وقت نہ بتایا تو اب کیوں بتا رہی ہو؟“ سسر نےغصّے سے پوچھا، ”ابا مجھے کون سا بتا کر گئے تھے؟ غصّے میں کمرے سے نکل گئے تھے بس۔“ حنا نے ہکلاتے ہوۓ بتایا۔ ”غصّے سے گیا ہے مطلب کہ منحوس تو اس سے لڑ رہی تھی؟“ ساس اس پر لپکیں، سسر نے انھیں روکا ”ہوش سے کام لیں بیگم، آپ تو یوں پریشان ہورہی ہیں جیسے آپ کا شیرخوار بھیڑ میں کھو گیا ہے، نیا نیا عاشق بنا ہے، ذرا آگ کا دریا پار کرنے دیں، عشق کا بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے ابھی تو چار دن میں سارا نشہ ہرن ہوجاۓ گا تو زمین پر واپس آجاۓگا۔“ سسر صاحب کو عشق سے محروم رہنے کا بڑا قلق تھا اس لئے اکثر صاحبزادے پر طنز کر دیا کرتے تھے۔ ساس صاحبہ کو شوہر کی بات پسند تونہ آئی مگر خاموش ہوگئیں۔ حنا عمیر کی جانب سے ملی بے قدری کا ماتم ابھی مکمل بھی نہ کرسکی تھی کہ ساس سے مار کھانے کا تمغہ بھی اس کے وجود کا حصّہ بن گیا، ساس کے اس طرح کے روئیے نے حنا کو سمجھا دیا تھا کہ سہاگن وہی جو پیا من بھاۓ۔ اگرپیا نے اسے جوتے کی نوک پر رکھ دیا تھا تو کوئی اسے سر کا تاج کیوں بناتا؟ اس کا اس گھر میں ہونا ایسا ہی تھا جیسے مخمل میں ٹاٹ کا پیوند، بیشک اس مخمل کی خوبصورتی اس ٹاٹ کی وجہ سے ہی ممکن ہے مگر پرستش تو مخمل کی ہوتی ہے۔

سسر صاحب کی بات درست ثابت ہوئی اور عمیر متورم آنکھیں لئے گھر آیا اور آتے ہی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ”ماں صدقے، ماں واری، بتا کیا ہوا، کیوں رورہا ہے؟ “ساس صاحبہ نے گھبرا کے پوچھا، مگر آفرین ہے عمیر پر اس نے ایک لفظ نہ بولا اور ماں کی گود میں چھوٹے بچے کی طرح سہما ہوا چھپا بیٹھا رہا، ساس صاحبہ ہولتی رہیں مگر عمیر نے ایک لفظ نہیں بولا، سسر عمیر کی باتوں اور رونے کو ڈرامہ کہہ کر اس جگہ سے واک آؤٹ کر گئے تھے، باقی بچی حنا تو اس ساری صورتحال میں اس کی حثیثت دودھ میں مکھی کی سی تھی جِسے نکال کے باہر پھینک دیا گیا تھا کہ مکھی اس دودھ کو خراب کر دے گی ۔

حنا کی خمیر میں گوندھی وفا اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ عمیر کے آنسو کا سبب جان سکے اور اس کے آنسو پونچھ سکے، مگر رات والی عزت افزائی کے بعد ایسا قدم ا ٹھانے پر گریزاں تھی، مگر اس دل کا کیا کیا جاۓ جو آج بھی عمیر کی تکلیف پر خون کے آنسو رو رہا تھا، بے شک اس کی نسوانیت کو عمیر نے مار دھاڑ کر کرچی کرچی کیا تھا مگر وہ اپنی بے وفائی کے باوجود حنا کے دل سے اپنی محبت کے ستون کو گرا نہیں سکا تھا۔ تما م تر نفرت کے باوجود حنا پھر آگے بڑھی اور بلکتے عمیر کی تکلیف جاننے کی کوشش کر نے لگی ”بتائیں عمیر کیا ہوا آپ کو میری قسم! دیکھیں اماں کی حالت دیکھیں، کتنی پریشان ہیں؟ اماں کی خاطر بتا دیں۔“ حنا منت کرنے لگی۔ ”ہاں میرے لال ماں کو بتا دے کیا ہواتجھے؟ لمبا چوڑا مرد بچوں کی طرح روتا اچھا نہیں لگتا، بتا!“ اماں نے بھی حنا کی بات سے اتفاق کیا۔ ”اماں اماں، حنا، بتاؤ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے “عمیر ہچکیوں کے درمیان بولا ”اماں میں نے راتوں کو اٹھ کر ﷲ سے مانگا اسے، ہر مزار پر چادر چڑھائی ، لنگر کئے اور تو اور اماں میں مندر بھی گیا، دھاگے بھی باندھے، پھر بھی اماں وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی“ عمیر سانس لینے کو رکا، حنا پتھرائی آنکھوں سے عمیر کے انکشافات سن رہی تھی،”وہ مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی حنا میں کیسے رہوں گا اس کے بغیر؟ میری تو دنیا ویران ہوگئی ہے، میں نہیں رہ سکتا اماں، حنا دیکھو تم ﷲ کی بہت عبادت کرتی ہوں ناں تم ۔۔۔ تم ۔۔ حنا ۔۔ تم اللہ سے دعا کرو ناں میں مر جاؤں !!! میں نہیں رہ سکتا اس کے بنا“ عمیر روتے روتے بولتا جا رہا تھا، ”کیا ہذیان بک رہا ہے مرے تیرے دشمن لعنت بھیج اس کلموہی پر، ارے ایسی عورتیں گھر نہیں بساتیں، چپ ہوجا، دیکھ میرا دل بند ہوجاۓ گا “ ساس اسے پچکارنے لگیں۔ عمیر ماں کی گود میں آنکھیں موندے لیٹ گیا۔ حنا وہاں سے اٹھی کیونکہ اس رب کا شکر تو واجب تھا کہ جس نے کُن کہا اور ہوگیا۔

مرد عورت پر ہاتھ اٹھانے کو اپنی مردانگی سمجھتا ہے، اسے طعنے تشنے دے کر اپنی فالج زدہ سوچ کی تسکین کرتا ہے۔ ماں بہن کے ساتھ یکجہتی جتانے کے لئے اس کے اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، ہر کام میں تنقید کر تا ہے اور ان کے درمیان راجہ اندر بنا مسندِعالیہ پر براجمان رہتا ہے، اپنے ازدواجی حق کی تسکین کے لئے گھنٹوں بیوی کی ٹانگیں بھی داب سکتا ہے ۔

مرد شاطر ہے کیونکہ وہ محبوبہ کی زلفیں سنوار کر بیوی سے بے وفائی کرنے کے بعد بھی ماں بہن کی مرضی کے مطابق بیوی کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ان کے جگر کا ٹکرا ہے اور محبوبہ کے دل میں قیام پذیر۔ بیک وقت کئی عورتوں کے احساسات و جذبات کو اپنے حق میں باآسانی استعمال کرتا ہے، کیونکہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورتوں کا ہاتھ ہے۔

1.3 3 votes
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments