چلنا ہے ساتھ ساتھ
چلنا ہے ساتھ ساتھ ۔۔۔
حارث کی تعلیم مکمل ہوچکی تھی اور آج کل وہ نوکری کی تلاش کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی تعمیر کروارہا ہے۔ وہ من موجی مگرمستقل مزاج لڑکا ہے، جس بات کا ارادہ کر لے اس کو حاصل کرکے رہتا ہے۔ مکان کی تعمیر کے دوران وہاں پڑوس میں رہنے والی فرحت کی بڑی بڑی آنکھوں میں ڈوب گیا۔
فرحت کے تین بھائی ہیں جو اونچے لمبے اور فربی مائل جسامت رکھتے ہیں، تینوں شادی شدہ اور بال بچوں والے، پانچ بہنیں اپنے گھر کی ہیں ایک بہن فرحت سے چھوٹی، والد صاحب سرکاری ادارے سے چند ماہ قبل ریٹائر ہوۓ ہیں اور والدہ گھریلو خاتون ہیں، یہ لوگ محلے میں زیادہ ملتے جلتے نہیں، چند دنوں میں حارث صرف یہ معلومات اکٹھا کر سکا تھا۔ اس ساری صورتحال میں حارث کا فرحت سے رابطہ کرنا ناممکن تھا، جبکہ حارث ہر گزرتے دن کے ساتھ فرحت کی محبت میں گرفتار ہوتا جارہا تھا اور اسے اپنی ز ندگی میں شامل کرنے کے لئے پرعزم تھا مگر محبت کے سلسلے کو آگے بڑھانے کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا تھا، فرحت کا گھر چونکہ پڑوس میں تھا اس لئے محبوب کے دیدار کے چکر میں اس کا اچھا خاصا گورا رنگ دھوپ میں کھڑے کھڑے کالا ہوتا جارہا تھا، اس مشقت کا بس یہ فائدہ ہوا کہ فرحت اور اس کی بہن حارث کی موجودگی کو سمجھنے لگیں، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، حارث کو حوصلہ ملا کہ جلد یا بدیراس کی محبت کی پینگیں بھی بڑھیں گی۔
حارث کے ارادے چونکہ مضبوط تھے اور وہ مستقبل مزاجی سے محبوب کو حاصل کرنے کا خواہاں تھا اس لئے ﷲ پاک کو اس کا صبر پسند آگیا اور پانی لینےکے بہانے اس نے محبت نامہ فرحت کے حوالے کردیا، محبت نامہ کیا تھا حارث کا دل تھا محبت نامے میں اس نے اپنا دل کھول کر فرحت کے سامنے رکھ دیا تھا، فرحت شرمیلے مزاج کی معصوم سی لڑکی تھی، کئی مہینوں سے حارث کے اطوار دیکھ رہی تھی اور اس کی شرافت اور رکھ رکھاؤ کی قائل تھی، محبت نامہ پڑھ کر اس کے دل میں بھی حارث کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگیا، حارث کے دیئے گئے نمبر پر رابطہ کر کے اس کے جذبات کی قدر کرتے ہوۓ اسے پسندیدگی کی سند اس شرط پر دی کہ جلد اپنے والدین کو رشتہ لے کر فرحت کے ہاں بھیجے۔
پسندیدگی کی سند پاکر حارث خود کو آسمان پر اڑتا محسوس کر رہاتھا، محبت کا پہلا پڑاؤ پار کرنے پر ﷲ کا شکر گزار تھا، دوسرے مرحلے پر اب اسے اپنے گھر والوں کو راضی کرنا تھا، یہ مرحلہ دشوار تو نہ تھا تاہم اس کا بے روزگار ہونا مشکل پیدا کرسکتا تھا۔
حارث پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا، بڑی بہن کی شادی ہوچکی تھی، اس کا تعلق پڑھے لکھے گھرانے سے تھا۔ والدین کا واحد اعتراض اس کی بے روزگاری تھی، ان کا کہنا تھا کہ کیسے وہ کسی لڑکی کے گھر اپنے بے روزگار بیٹے کا رشتہ لے کر جائیں جبکہ وہ خود بھی بیٹیوں والے ہیں، حارث فرحت کو کھونا نہیں چاہتا تھا اس لئے والدین کو مختلف دلائل دینے لگا اور یقین دلانے لگا کہ جلد ہی اسے اچھی نوکری بھی مل جاۓ گی لیکن وہ نوکری کے چکر میں من پسند چھوکری نہیں کھو سکتا، اس وعدے کے ساتھ کہ شادی نوکری کے بعد ہی ہوگی ابھی صرف رشتہ لے جایا جاۓ گا حارث کے گھر والے راضی ہوگئے۔
فرحت کے گھر والوں نے حارث کے گھر والوں کا پرتپاک استقبال کیا، آنے کا مقصد جان کر پہلے تو حیران ہوۓ چونکہ رشتہ معقول تھا اس لئے سوچنے کے لئے وقت مانگ لیا، حارث کے گھر والوں کو بھی فرحت پسند آئی اور وہ پرامید واپس آۓ۔ چند دنوں کی سوچ بچار کے بعد فرحت کے گھر والوں نے باخوشی رشتہ قبول کرلیا۔
محبت کے امتحان میں کامیابی کے بعد حارث کا اصل امتحان اب شروع ہوا تھا، نوکری کاحصول فی زمانہ سب سے مشکل کام تھا، وہ پڑھا لکھا اور محنتی لڑکا تھا اور زندگی سے پرامید بھی اس لئے جلد ہی اسے ایک ٹیکسٹائل مل میں نوکری مل گئی، نوکری ملنے سے زیادہ حارث کو فرحت کی نظر میں کامیاب ہونے کی خوشی تھی، سجدہ شکرلازم تھا کہ رب نے اسے جلد ہی نوکری اور اس کے بعد من پسند جیون ساتھی سے نوازنا ہے۔
دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زور وشور سے جاری تھیں، مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں کے گھر پڑوس میں تھے، دونوں گھرانے ایک دوسرے کی پل پل کی تیاری سے واقف تھے، ایک گھر سے گانوں کی آواز آتی تو فوراً دوسرے گھر میں لڈی ڈلنا شروع ہوجاتی، حارث اور فرحت پر کڑی نظر رکھی جارہی تھی کیونکہ اپنی شادی کے دن اب دور نہیں لازمی ہے کہ تم مجھ سے پردہ کرو۔ منتوں بھری رات اپنے پورے جوبن کے ساتھ اتری ، چاند کی چاندنی میں آج دونوں کے وجود چمک رہے تھے، حارث محبت کی معراج پر پہنچ کر خداوند کریم کا شکرگزار تھا، دونوں گھرانے آج رات کی حسین جوڑی کی نظراتارتے نہیں تھک رہے تھے۔ فرحت پیا سنگ رخصت ہوکر جب سسرال پہنچی تو محبت اور مان کے ساتھ اس کا بہترین استقبال کیا گیا۔
حارث اور فرحت ایک دوسرے کی قربت میں صدیوں کی مسافت طے کرنے کے لئے پرعزم تھے، ایک دوسرے کی سنگت میں خوش اور مطمئن تھے، حارث نے اپنے تمام وعدے سچ کر دکھاۓ تھے، سسرال سے بھی مان سمان سب مل گیا، فرحت خود کو دنیا کی خوش قسمت لڑکی سمجھنے لگی۔
حارث تو ہر امتحان میں کامیاب ہو گیا تھا اب فرحت کی باری تھی، گھر میں بھابھیوں کی موجودگی میں کبھی باورچی خانے کا رخ نہ کیا تھا، مگر اب تو اپنی گھر گرہستی تھی اور سسرال کی محبت اور مان کا جواب بھی محبت اور مان سے دینا تھا اس لئے اس نے کمر کس لی، ساس نے میٹھے میں ہاتھ لگوا کر باورچی خانہ اس کے حوالے کیا تو اسے گھر گر ہستی کے گُر سکھانے کے ساتھ ساتھ ہر ممکن مدد کی پیشکش بھی کی۔
حارث سبزیاں شوق سے کھاتا تھا اور بھنڈی تو اسے سب سے زیادہ پسند تھی، فرحت نے رات میں حارث کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوۓ بھنڈی بنانے کا فیصلہ کیا، بھنڈی فرائی کرنے کے بعد، پیاز اور ٹماٹر اچھی طرح بھوننے کے بعد اس میں بھنڈی شامل کی، خوشبو اور شکل دونوں مزیدار تھی، سبزی دم پر رکھ کر فرحت نک سک سے تیار ہونے چل دی تاکہ شوہر کا استقبال کرسکے، کھانا پکانے کا پہلا تجربہ تھا اس لئے دم پر رکھتے ہوۓ چولہے کی آگ کم کرنا بھول گئی ۔ تیار ہو کر جب باہر آئی تو سبزی چلنے کی بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، ساس چولھا بند کر چکی تھیں بھنڈی جل کر سیاہ ہوگئی تھی، پہلا تجربہ اور وہ بھی سسرال میں بری طرح ناکام ہونے سے فرحت بہت زیادہ شرمندہ ہوگئی اور زاروقطار رونے لگی، اسے روتا دیکھ کر ساس پریشان ہوگئیں، اسے گلے لگایا تو اس کی ہچکیاں بندھ گئیں، آن کی آن سارا گھر جمع ہوگیا اور اس معمے کو سلجھانے کی کوشش کرنے لگا مگر ناکام ، سب کو اپنے لئے پریشان دیکھ کر فرحت کے رونے میں شدت بھی آگئی۔ سب پریشان کہ ہوا کیا ہے، ساس بیچاری سب کو صفائیاں دینے لگیں کہ ابھی تو ہنستی مسکراتی کمرے سے نکلی ہے نہ جانے یک دم کیوں رونے لگی ہے، اتنے میں حارث بھی گھر آجاتا ہے بیوی کو ایسے روتے دیکھ کر وہ بھی رونے لگ جاتا ہے، اب تو پورا گھر پریشان کہ ایسا کیا ہوگیا کہ دونوں رو رہے ہیں، سب کا پوچھنا بے سود دونوں کے رونے میں ذرا بھی فرق نہیں آتا، سسرصاحب کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ ذرا اونچی آواز میں حارث سے رونے کی وجہ پوچھتے ہیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو فرحت کی وجہ سے رو رہا ہے، اب وجہ فرحت سے پوچھی جاتی ہے تو بتاتی ہے کہ بہت دل سے بنائی گئی بھنڈی جل گئی ہے اور آپ سب چونکہ مجھے پھوہڑ سمجھیں گے اس لئے اسے رونا آرہا ہے۔۔۔ رونے کی وجہ جان کر سب نے اپنے سر پیٹ لئے، ساس نے گلے لگا کر اس کی ہمت بڑھائی اور سسر نے بچی کچی جلی ہوئی بھنڈی نہ صرف رغبت سے کھائی بلکہ اسے انعام بھی دیا ۔
رہا حارث تو وہ اسے کینڈل لائٹ ڈنر کے لئے لے گیا اور اس سے وعدہ لیا کہ آئندہ زندگی میں کبھی نہیں روۓ گی کیونکہ حارث اس کا رونا دیکھ کر رونے لگ جاتا ہے اور وہ روتے ہوۓ بہت برا لگتا ہے۔