Life in SusralRespect in Susral

پیا کے گھر۔۔۔ خوش آمدید! ۔ قسط 02

[ پچھلی قسط 01 ]

پیا کے گھر۔۔۔ خوش آمدید! ۔ قسط 02

نیا گھر ، نیا ماحول اور ماں کی لاڈلی بے یارو مدد گار۔۔۔

شایان ماں کے پیچھے چلاگیا، زرنش حسرت ویاس کی تصویر بنی شایان کی منتظر تھی، مگر شایان اس پیکر انتظار کی فکر کو ہوا میں اڑاۓ، ماں کی گود میں مانند طفل آرام کرنے میں مگن تھا، اماں اور بیٹا زرنش کے وجود سے بےخبر خوش گپیوں میں مشغول تھے، جہیز میں آۓ۹۰ انچ کےایل اے ڈی پر ڈرامہ “صدقے تمہارے” کی نشر مکررقسط دیکھنے میں مصروف، دوپہر تین بجے سے پارلر پہنچائی گئی زرنش شایان کی نگاہ شوق کے لئے بے قرار بے صبر ی سے انتظار کر رہی تھی مگر اماں یمنیٰ زیدی کی اداکاری کو سراہا رہیں تھیں تو شایان کیسے اس پری وش کو دیکھنے سے انکار کرکے ماں کا نافرمان ہو سکتا تھا۔

بے قدری کے رنگ ذرا مدہم ہوۓ تو زرنش کو بھوک کا احساس ہوا، وہ اندازہ لگانے لگی کہ آخری بار اس نے کھانا کب کھایا تھا، ذہن جیسے کچھ سوچنے پر آمادہ ہی نہیں تھا۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی، زرنش شرما کر سمٹ گئی اورنظریں جھکاۓ انتظار کو شکست دینے کو تیار۔۔۔ اس نے امید بھری نگاہوں سےدروازے کی جانب دیکھا مگر شایان کا چہرہ کہیں نظر نہیں آیا، دوبارہ دستک ہوئی اور سسر صاحب نے زرنش سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔

“بیٹا زرنش! یہ میں کچھ کھانے کو لایا ہوں، آپ نے نہ جانے کب سے کچھ نہ کھایا ہو،” سائیڈ ٹیبل پر سامان رکھ کر جانے لگےکہ یک دم کچھ یاد آنے پر واپس مڑے اور زرنش کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے “بیٹا میں معذرت خواہ ہو ں، جمیلہ کے اس طرح کے رویے پر۔۔ بے وقوف عورت ہے سمجھتی نہیں رشتوں کے تقدس کو، آج تک حسن کا خراج وصول کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، اس کے نزدیک اس کا حسن سب سے اہم ہے، سب بس اس کے حسن پر غزل کہیں اور اس کی ذات پرقصیدہ، ارے اگر بادشاہوں کے زمانے میں ہوتی تو اس پر لکھے گئے قصیدوں کی کئی جلدیں ہوتیں۔

بیٹی اسے میری کم ہمتی کہو یا ڈر مگر میں اس عورت کو آج تک سمجھا نہیں پایا، احساس نہیں دلا پایا کہ حسن کی ہر دلیل اخلاق کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہے، اخلاق حسن کے تکبر پر شکوہ کناں ضرور مگر کچھ کرنے سے قاصر۔ جنتی ماں کی پسند تھی، ماں کی پسند پر سر تسلیم خم کیا۔ جہیز میں بہت سا زیور لائی تھی مگر علم کے زیور سے مبرّا تھیں، ما ں باپ کی اکلوتی اولاد تھیں اور ﷲ نے عقل و شعور کی جگہ حسن کی ایسی چمک دمک دی تھی کہ والدین نے اس پر ہی اکتفاء کیا اور تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ نہ دی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے آج اس عمر میں بھی صرف اپنے حسن کی تعریف سننا ہےاورتماشہ لگانا ان کا اولین شوق اور مقصد ہے۔

بیٹا!! آپ پڑھی لکھی ہیں، والدین نے بہترین تربیت کی ہے، آپ کی چال ڈھال میں سمجھداری کی جھلک نظر آتی ہے۔ جمیلہ سے تو میں مایوس ہوچکا ہوں، جمیلہ کی باتوں کو درگزر کرنا ناممکن ہے پھر بھی توقع ہے کہ آپ اس کی نفسیات کو سمجھتے ہوۓ اپنا لائحہ عمل تیار کریں گی اور اس مکان کو جنت نہ سہی گھر بنا دیں گی۔ آپ میری اگلی نسل کی امین ہیں تو اب میں مطمئن ہوں کہ تعلیم اب ہمارے گھر کا حصہ ہوگی، تربیت پر خصوصی توجہ دی جاۓ گی، سدا سہاگن رہو۔” سسر اپنی امیدیں، توقعات اور خواہشات کا بوجھ زرنش کے کندھوں پر ڈال کر یہ جا اور وہ جا۔

سسر کی باتوں اور شایان کے رویے نے جمیلہ خاتون کے مقام اور مرتبے کا ایک ایسا خاکہ پیش کیا تھا کہ زرنش ان کے سامنے سنووائٹ کے بونے جتنا قد رکھتی ہےاور شہزادہ تو سنووائٹ کی خوبصورتی کا قدر دان ہے اسے اس بات کی چنداں فکر نہیں کہ مشکل وقت میں سنووائٹ کو سہارا کس نے دیا ۔ زرنش بھی اس بونے کی طرح ہوگئی تھی جو نسل کی امین تو تھی مگرشہزادہ صرف سنووائٹ کا دلدادہ اور سنووائٹ زرنش نہیں تھی جوناقابل برداشت بات تھی۔

ذہن میں ہزاروں سوچوں کی یلغار لئے نا جانے کب زرنش کی آنکھ لگ گئی تھی ، کمرے میں ہونے والی کھٹ پٹ سے آنکھ کھلی تو دیکھا کہ شایان ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا ہے، شایان کو اپنے جانب ایسے دیکھ کر زرنش کی ہتھلیوں میں پسینہ آنے لگا اور پلکیں خود بہ خود شرم سے جھک گئیں، یک دم الماری کے پٹ کے بند ہونے کی آواز آئی جس کے ساتھ ہی حجلہ عروسی کا منظر بدلتا ہوا محسوس ہوا۔

“ارے نگوڑ ماری کیسے پڑی سو رہی تھی، شوہر کی فکر ہی نہیں کہاں ہے؟ کتنے ارمانوں والی رات ہوتی ہے مگر بہو صاحبہ آرام فرمارہی ہیں۔۔۔ میری تو قسمت خراب تھی ہی میرے ہیرے جیسےبیٹے کی قدر ہی نہیں۔” زرنش مجرموں کی طرح سر جھکاۓ ان کے الزامات سن رہی تھی۔۔۔۔۔

جمیلہ خاتون نے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوۓ الماری سے نکالے ہوۓ کپڑے سمیٹے اور آنسو پونچھتے ہوۓ دکھی دل کے ساتھ کمرے سے نکلیں اور باہر نکل کر شایان کو آوازیں دینے لگیں، شایان ماں کی آواز پر لبیک کہتا کمرے سے باہر نکلا، اماں نے اسے گلے لگایا اور باآواز بلند ٍکہنے لگیں کہ دیکھ تیری بیوی کتنی سبز قدم ثابت ہوئی، آتے ہی اس کی تعلیم کی بدبختی کے بادلوں نے اس گھر کو اپنے حصار میں لے لیا ہے، اگر جو حسن میں میرے ہم پلہ ہوتی تو ناجانے دماغ کہاں ہوتا ؟ ہر کوئی تیری ماں کی طرح تھوڑی ہوتا ہے کہ اسے اپنے حسن کا احساس ہی نہ ہواور ساری زندگی ایک کم شکل انسان کے ساتھ ﷲ کا شکر کرتے گزار دے، چند گھنٹوں میں اپنی نحوست دکھا دی ﷲ جانے آگے کیا کیا گل کھلاۓ گی۔۔۔ بس بیٹا اس چڑیل سے بچ کے رہنا، شایان کے ماتھے کا بوسہ لیا اور اس کے ہاتھ میں زرنش کی قربت کا پروانہ پکڑایا، اندر زرنش اپنی نحوست کی داستان امیرحمزہ سن کر کسی خضر کی تلاش میں تھی جو اس کی ذات کی بدبختی کو خوش بختی میں بدل کر اس صحراۓ ناامید ی سے نکال کر امید کے نخلستان کی جانب لے چلے۔

[ جاری ہے۔۔۔ قسط 03 ]

5 1 vote
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments