پیا کے گھر۔۔۔ خوش آمدید! ۔ قسط 03

[ پچھلی قسط 02 ]

پیا کے گھر۔۔۔ خوش آمدید! ۔ قسط 03

زرنش اپنی نحوست کی داستان امیر حمزہ سن کر کسی خضر کی تلاش میں تھی جو اس کی ذات کی بدبختی کو خوش بختی میں بدل کر اس صحراۓ ناامیدی سے نکال کر امید کے نخلستان کی جانب لے چلے۔

زرنش جو باپ کا فخر، ماں کا غرور اور بہن بھائیوں کا مان تھی یکدم منحوس بن گئی تھی۔ زندگی کی ڈور جس انسان کے ہاتھوں سونپی تھی وہ ماں کے پلو کو آغوشِ حیات سمجھے مطمئن تھا۔

ماں کی اجازت کے بعد شایان کمرے میں آیا، طائرانہ سی نظر زرنش کے وجود پر ڈالی اور سامنے بیٹھ کےسگریٹ سلگانے لگا۔ ”ابّا آپ کی بہت تعریف کررہے ہیں، انھیں تو لگتا ہے کہ ان کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہے، خیر ان کی تو عادت ہے وہ ہمیشہ امّاں کی حق تلفی کرتے ہیں، آپ مجھے اس لئے عزیز تھیں کہ آپ میری امّاں کی پسند ہیں، مگر آج آتے ہی آپ نے جس تنگ دلی کا مظاہرہ کیا اس نے میرے اور آپ کے رشتے میں ایک دراڑ سی ڈال دی ہے، آپ کی وجہ سے میری ماں کی آنکھوں میں آنسو آۓ یہ بات ناقابل برداشت ہے۔ آپ کی پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کردیتا ہوں، میری ماں نے مجھے سکھایا ہے کہ معاف کرنے والا ہی بڑاہوتا ہے۔ آپ اس وقت ہی عزت و توقیر کی حق دار ہیں جب آپ میری امّاں کی عزت کریں گی، امید کرتا ہوں کہ میری باتیں آپ نے پلو سے باندھ لی ہونگی اور آئندہ احتیاط کریں گی“۔ شایان نے سگریٹ ایش ٹرے میں بجھایا اور واش روم کی طرف چلا گیا۔

سسر صاحب آۓ اور امیدوں کے ٹوکرے منہ دکھائی میں دے کر چلے گئے، مجازی خدا آۓ اور تمام تر نفرت منہ دکھائی میں منہ پر مار کر چلتے بنے۔ ”آپ مجھے عزیز تھیں“ زرنش تو اس جملے کی بازگشت میں ہی کھو گئی تھی، ازدواجی زندگی شروع ہوۓ ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ زندگی میں شامل ہونے والا ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وارث بننے سے انکاری ہوگیا تھا۔ زندگی نے چند لمحے میں اپنے کئی روپ دکھاۓ، پہلے روپ میں سسر واری صدقے تھے، دوسرے روپ میں ساس سوتن بن کر روبرو تھیں اور آخری روپ میں شوہرِنامدار ماں کے دکھوں کا مدوا کرنے کے لئے ہر دم پرعزم۔ نیا ماحول، نئے لوگ، نئے رواج اور نیا گھر، زرنش کے لئے کسی قید خانے سے کم نہیں تھا۔

شایان خراماں خراماں واش روم سے باہر آیا اور زرنش کے سامنے بیٹھ کر پرشوق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا، زرنش خود میں سمٹ گئی، شایان اس کے سمٹنے سے محظوظ ہوا، زیرِلب مسکرایا اور زرنش کا ہاتھ تھام کر اسے آہستہ سے دبایا، زرنش کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں اور آنکھیں شرم سے جھگ گئیں۔ شایان زرنش کی شرم کے آگے دل ہار بیٹھا، اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا چہرہ اونچا کیا اور اس کے ماتھے پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی۔

”آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں، میں آپ کو اپسرا تو نہیں کہوں گا مگر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کے آپ اپنی اپنی لگ رہی ہیں۔“ شایان کے لفظوں میں اتنی شیرنی تھیں کہ زرنش اس کی مٹھاس کو آہستہ آہستہ کشید کر رہی تھی، ”آپ کی طلسماتی آنکھوں میں میں اپنی محبت کی قوس وقزح دیکھنا چاہتا ہوں، آپ کے لبوں سے اپنا نام سننا میری اولین خواہش ہے، آپ کے دل کے نہال خانوں میں بسنا چاہتا ہوں، آپ کی دھڑکن کی لے پر اپنے دل کی دھڑکن سننا چاہتا ہوں“ شایان جذب کے عالم میں بولے جارہا تھا اور زرنش اس کی محبت کی میٹھی پھوار میں بھیگی جارہی تھی۔

”زرنش“ شایان نے اس کے کان میں سرگوشی کی، زرنش کو اس کا دل کان میں دھڑکتا ہوا محسوس ہوا، ”زرنش“ ایک بار پھر سرگوشی ہوئی، ”جی“ زرنش شرماتے ہوۓ بولی۔ ”ایسے نہیں جانِ شایان میری اولین خواہش پوری کرد یں اپنے گلاب ہونٹوں سے میرا نام لیں“ شایان نے محبت بھری سرگوشی کی، اس طرزِ مخاطب پر زرنش شرما کر شایان کے کشادہ سینے میں چھپ گئی ۔

نفرت کی جھُلسادینے والی دھوپ اچانک محبت کی برسات میں بدل گئی اور دونوں محبت کی برسات میں بھیگتے چلے جارہے تھے، پیار کی مدہم ہوا کے زور پر دونوں کے دل ساتھ دھڑک رہے تھے، عشق کی لَے پر دو وجود تھِرک رہے تھے۔ محبت جب ابَر بن کے برستی ہے تو ابنِ آدم اس پھوار میں صرف بھیگ ہی سکتا ہے کیونکہ نکاح کے دو بولوں میں ربِ محمد ﷺ نے چاہت کی دھنک کے ہر رنگ کو عیاں کیا ہے۔

[ جاری ہے۔۔۔ قسط 04 ]

5 1 vote
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments