پیا کے گھر۔۔۔ خوش آمدید! ۔ قسط 04
پیا کے گھر۔۔۔ خوش آمدید! ۔ قسط 04
ربِ محمد ﷺ نے نکاح میں بہت برکت رکھی ہے، دو اجنبی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اٹوٹ بندھن میں بندھ جاتے ہیں، نوزائیدہ رشتہ لمحوں میں پاؤں پاؤں بھاگنے لگتا ہے اور گھنٹوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا عاقل و باشعور ہوجاتا ہے۔
زرنش اور شایان بھی مقدس رشتے کی لڑی میں پروۓ گئے تھے اس لئے طلسماتی لمحوں میں قید ہوکر ایک دوسرے میں ضم ان پاک لمحوں کی مہک جو مشک و عنبر کی خوشبو کو مات دیتی ہے اپنے وجود میں جذب کررہے تھے، پیار کی پھوار میں دو وجود مدھر موسیقی کی دھن میں تھرک رہے تھے، کیونکہ فرزند آدم ازل سے بنت حوّا کے قرُب کا خوا ہشمند رہا ہے۔
زرنش چند گھنٹوں پہلے ہونے والی بے قدری و بے توقیری سراسر بھلاۓ شوہر کی جانب سے ملنے والی توجہ پاکر خود کو آسمانوں پر اڑتا محسوس کررہی تھی، خدا نے عورت کے وجود میں کتنی لچک رکھی ہے کہ پل میں لہجے کی کڑواہٹ سے ٹوٹ جاتی ہے اور پل میں محبت کےجملوں کے عوض سپردگی کے مراحل طے کر لیتی ہے، اس کے برعکس مرد ہمیشہ سے اپنی انا کا غلام ہے، پل میں عورت کو کوہ نور کی طرح اپنے شملے میں سجا لے گا اور اگلے ہی پل بے اعتنائی کی ہر حد کو توڑتا اسے قدموں میں روند ڈالے گا، وہ محبت میں مزاجیت کا قائل ہے، مزاج ہے تو جان وار دے گا مزاج نہیں تو جان لینے کے در پے ہوجائیگا، شاید اس کا مزاج دیکھتے ہوۓ ہی اسے مزاجی خدا کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ خداۓ برحق نے بھی مرد کے مزاج سے واقفیت رکھتے ہوۓ ہی اس پر سجدے کو ممنوع کر دیا۔
امنگوں والی رات کے اختتام پر موذن کی آواز کسی نعمت سے کم نہیں تھی، زرنش کی مسکراتی نظریں شایان کے چہرے کا طواف کررہی تھی، اس نے خود کو شایان کے وجود سے الگ کرنے کی کوشش کی مگر شایان کی گرفت مضبوط تھی، اس گرفت میں جو احساس تحفظ زرنش کے وجود کو منور کررہا تھا، زرنش نے ایک بار پھر خود کو الگ کرنے کی کوشش کی مگر اس بار شاید شایان بھی جاگ گیا تھا اس لئے اس نے زرنش کو خود سے قریب کیا اور اس کے ماتھے پر ایک محبت بھری شرارت کی، شایان کی اس شرارت پر حیران پریشان زرنش شرما کر شایان کے چوڑے سینے میں چھپ گئی، شایان نے بھی اس کے گرد گرفت مزید مضبوط کردی، محبت بھری اس شرارت نے زرنش کے وجود میں سکون بھر دیا اور نجانے کب وہ اس تحفظ میں نیند کی وادیوں میں اتر کر مستقبل کے خواب دیکھنے لگی۔
زرنش مستقبل کے تانے بانے بننُے میں اتنی مگن تھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب شایان اس کے پہلو سے نکل کر اپنی ماں کے آغوش میں جاکے رُوپو ش ہوگیا۔۔۔ خوبصورت خوابوں کی وادیوں سے جب ہوش میں آئی تو پہلے پہل تو منظر اور ماحول کو پہچانے میں دقت ہوئی اس کے بعد جب ہوش کی وادی میں واپسی ہوئی تو نظریں شایان کو تلاشنے لگیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا تو گھبرا گئی، تیار ہونے کے لئے الماری کھولی تو اندازہ ہوا کہ آج کے دن کے لئے اہتمام سے بنایا گیا جوڑا اس میں موجود نہیں، نند دو بار دروازے پر دستک دے چکی تھی، حیران سے زیادہ پریشان زرنش نے دوسرا لباس زیب تن کیا اور ہلکا پھلکا میک اپ کرکے اس نے گیلے بال پشت پر کھلے چھوڑ دئیےاور باہر کی طرف جانے لگی۔
ٹی وی لاونج میں محفل سجی ہوئی تھی، خوش گپیوں کی آواز آرہی تھی، نیا ماحول تھا اسلئے آوازوں کا تعاقب کرتی لاونج تک پہنچی اور سب کو سلام کرکے شایان کے ساتھ بیٹھ گئی، طائرانہ سی نظر سب پر ڈالی اور سر جھکا کے بیٹھ گئی، سب سے نظریں بچا کر شایان نے اس کی کمر پر چٹکی لی۔۔۔ زرنش سی کرکر رہ گئی اور اس کا سر شرم سے مزید جھک گیا، سب خوش گپیوں میں مصروف تھے، اتنے میں جمیلہ خاتون زرنش کا آج کا پہننے والا لباس پہنے سجی سنوری ٹی وی لاونج میں داخل ہوئی کہ چہار سو خوشبو پھیل گئی، شایان نے آگے بڑھ کر ماں کو گلے لگایا، ماں نے بیٹے کا ماتھا چومتے ہوۓ تمام بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا دی، بیٹا ماں کا ہاتھ پکڑ کر دوزانوں بیٹھ کر ماں کی خوبصورتی کے قصیدے پڑھنے لگا، جمیلہ خاتون بھی دوشیزاؤں کی طرح اٹھلائی جارہی تھیں، اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے شایان نے بہن کو پکارا تو وہ بھائی سے بھی چار ہاتھ آگے نکلی اور ماں کی تعریف میں قلابے ملانے لگی، سسر بیچارے خاموشی کے ساتھ اخبار پڑھتے رہے، اور زرنش خاموش تماشائی کی طرح کبھی ساس، کبھی نند تو کبھی شایان کو دیکھتی جو اس کے وجود سے بے نیاز آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
”اب بس بھی کردو یہ تماشہ بیگم !!!“سسر اونچی آواز میں بولے، سب چونک کر ان کو دیکھنے لگے، ”کیا مطلب ؟ جمیلہ خاتون نے ہکلاتے ہوۓ کہا“، ”تماشہ۔۔۔ بیگم جو آپ کر رہی ہیںَ؟ میں نے کل ہی آپ سے کہا تھا کہ بہو کے جہیز کے جوڑے آپ کے لئے نہیں جن پر اپنا حق سمجھ کر آپ نے انھیں پہن لیا، اپنی عمر کا ناں صحیح اپنے رشتے کا ہی لحاظ کر لیں، آپ کے گھر بہو آئی ہے بیگم۔۔۔ بہو، یہ بات ذہن میں بٹھا لیں اور جس طرح اِس بچی کے جہیز کے لئے دل بڑا کرکے اُس پر اپنا حق سمجھتی ہیں ایسے ہی اِس بچی کو بھی اپنا سمجھیں، اس کے لئے دل اور گھر کے دروازے کھول دیں“ سسر صاحب نے طنزیہ لہجے میں جمیلہ بیگم کے جو لتے لئے، لاونج میں موجود تمام نفوس پر سکتہ طاری ہوگیا۔۔۔ ”جا ئیے اور جاکر لباس تبدیل کریں بہو کے گھر والے ناشتہ لے کر آنے والے ہونگے، میں مزید آپ کے بچگانہ روئیے کی وضاحت لوگوں کو نہیں دے سکتا“ سسر صاحب نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر تحکمانہ انداز میں حکم صادر کیا، جمیلہ خاتون مرتی کیا نہ کرتی پاؤں پٹختی وہاں سے چلتی بنیں۔
”شایان آپ میری پہلوٹھی کی اولاد ہیں، میرا غرور اور مان بھی ہیں، تعلیمی سفر ہو یا سماجی سفر آپ نے میرا سر ہمیشہ فخر سے بلند رکھا ہے، میں مانتا ہوں آپ کی ماں کی طرح میں آپ کے ناز نخرے نہیں اٹھا سکا لیکن آپ کی بہترین تعلیم وتربیت کے لئے میں نے شب وروز محنت کی ہے، آپکی تعلیمی اسناد اس بات کا ثبوت ہیں، اب آپ نے زندگی کا نیا سفر شروع کیا ہے جہاں اب آپ منصف اور مقتول بھی ہیں اور قتل بھی آپ کو خود ہونا ہے، ماں اور بیوی کے درمیان پل کا کام آپ نے انجام دینا ہے، ماں کے وقار میں کبھی کمی نہیں آنے دینی اور بیوی کی عزت نفس کبھی مجروح نہیں ہونے دینی، بہو پڑھی لکھی ہے آپ کا بھرپور ساتھ دے گی مگر اس گھر کا توازن اب آپ کی ذمے داری ہے“ سسر صاحب نے زرنش کے سر پر ہاتھ پھیرا اور جواں جہان بیٹے کو سینے سے لگا کر آنے والی جنگ کے لئے کمک مہیا کر دی۔
زرنش ابھی تو پیا کے پیار کی سوندھی سوندھی مہک کو قطرہ قطرہ سمو کر خود کو معطر بھی نہ کر سکی تھی کہ جہاد کا پروانہ اس کے ہاتھ تھما دیا گیا تھا اور اسے پابند کیا گیا تھا کہ جہاد بلقلم ہے۔
Interesting story! We are anxious to read next episode. Please upload it soon.