دلیّ دور است- قسط 01
دلیّ دور است- قسط 01
انگریزی کی کہاوت ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا، بالکل یہ ہی کہاوت دلّی کے لئے بھی صادق محسوس ہوتی ہے، پانڈوؤں کے زمانے سے لے کر مغلوں کے عہد تک، خدا جھوٹ نہ بلوائے، دلّی نے سینکڑوں انقلابات دیکھے۔ وقت کے دھارے پر بہتا یہ شہر ہر آنے والی تہذیب کو گلے لگاتا رہا اور ایک نیا روپ دھارتا رہا۔ وقت کے ساتھ نہ صرف اس کا نام اور تہذیب بدلی بلکہ ذائقے بھی بدلتے رہے۔ دلّی دراصل ایک ایسی دیگ ہے جس میں ہر مذہب و ملت کے ذائقے موجود ہیں۔
سعدیہ خاتون کا تعلق دہلی کے گھرانے سے تھا، ابّا مل اونر تھے، ﷲ جھوٹ نہ بلواۓ گھر میں اشیاء خوردش ونوش کا انبار لگا رہتا تھا، کوئی سائل خالی ہاتھ نہ جاتا، باورچی خانے میں انواع اقسام کے کھانے بنتے رہتے اور پڑوس اور رشتے داروں کے ہاں بھیجنا روز کا معمول تھا، سعدیہ خاتون نے بچپن میں اس ماحول میں آنکھ کھولی جہاں زندگی کھانے پکانے سے شروع ہوتی تھی اور رشتے داروں اور محلے میں تقسیم کرنا گھر کا قانون تھا جو ان کی دادی جان کے زمانے سے چلتا چلا آرہا تھا، لڑکپن آیا تو وہ والدہ کا بازو بنیں، ہاتھ میں ذائقہ اتنا تھا کہ ہر کھانے والا تعریف کئے بغیر نہ رہ پاتا، پہلے پہل تو والدہ کی مدد کی غرض سے باورچی خانے کا رخ کیا لیکن جلد اس ذمے داری سے کام سر انجام دینے لگیں کہ والدہ کو باورچی خانے سے نکال کر تخت پر بٹھا دیا، گھر میں ہونے والی دعوتوں میں سوسے زائد افراد کا کھانا باآسانی بنا لیا کرتی تھیں۔ تعلیم، حسن اور رکھ رکھاؤ میں پورے خاندان میں کوئی ثانی نہیں تھا، خاندان کی عورتیں اپنی بیٹیوں کو سعدیہ خاتون کی مثال دیا کرتی تھیں، وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ خاندان بھر کی آنکھوں کا تارا اور دلوں کا سکون تھیں۔
شادی کا وقت آیا تھا، گھر والوں کی نظر انتخاب پاک نیوی میں فرائض دینے والے فراز پر ٹھری، فراز کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی دہلی سے ہی تھا، فراز بہن بھائیوں میں سب سے بڑے اور ماں باپ کے لاڈلے سپوت تھے، خوبصورتی میں یکتا ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق کے حساس انسان تھے۔ چاند اور سورج کی جوڑی تھی، سعدیہ خاتون اپنے نیک اطوار کی بدولت سسرال بھر کی لاڈلی بن گئیں، معدے کے ذریعے سب کے دل تک پہنچ چکی تھیں، ساس ہر لمحہ ان کے گن گاتیں تو سسر ان سے مختلف طرح کے کھانے پکواکر ہر وقت تعریفوں کے ڈونگر برسایا کرتے تھے، ماں باپ کو اس حد تک مطمئن دیکھ کر فراز بھی گوڈے گوڈے سعدیہ بیگم کے عشق میں جلد ہی گرفتار ہوگئے اور ان کو دیکھ دیکھ کر جینے لگے، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہے تھے۔
میکے کی نسبت سسرال میں پیسے کی ریل پیل ذرا کم تھی مگر ﷲ کا بڑا کرم تھا، سعدیہ خاتون نے سسرال میں بھی میکے کا قانون رائج کردیا تھا اس لئے یہاں بھی محلے اور خاندان والوں کے گھر کھانا بھیجنے کا دستور قائم ہوگیا، محلے اور پورے سسرال میں جلد ہی ان کے سلیقے اور ذائقے کی طوطی بولنے لگی۔
دو بیٹوں کی یکے بعد دیگرے پیدائش نے ان کی ذمے داریوں میں بے انتہا اضافہ کر دیا تھا مگر وہ سسرال کی ذمے داریوں سے لمحہ بھر کے لئے بھی غافل نہیں ہوئی تھیں اور چھوٹے دیوروں اور نندوں کی شادی جس خوش اسلوبی سے انھوں نے سرانجام دی فراز سمیت سارا گھر ان کا گرویدہ ہوگیا، ان کی ساس تو برملا خود کو اس دنیا کی سب سے خوش قسمت ساس سمجھتی تھیں جنھیں ﷲ نے بہو کے روپ میں بیٹی سے نوازا تھا۔
سعدیہ خاتون بہترین بیٹی، بہو، بھابھی اور ماں ثابت ہوئی تھیں، زندگی کی ہر دوڑ میں نے انھوں صرف تعریف کے جھنڈے گاڑے تھے، میکے سے سسرال تک ہر جگہ بلا شرکت غیرے ملکہ بن کر راج کیا، بچپن ، لڑکپن، جوانی اور اڈھیر عمر تک صرف فاتح بن کر زندگی گزاری تھی۔ اکیسویں صدی میں سعدیہ خاتون جیسی عورت کے لئے بہوؤں کا انتخاب کرنا جوۓ شیر لانے کے مترادف تھا، ایک ایسا دور جس میں گھروں میں فوڈ پانڈا کا راج ہو وہاں سعدیہ خاتون کو اپنے جیسی سگھڑ بہو کا ملنا ناممکنات میں سے تھا، خاندان بھر کی لڑکیاں ان کے لڑکوں سے بہت چھوٹی تھیں۔
خیر سے بڑے بیٹے ارحم جو کہ ڈاکڑ تھا اس نے جیون ساتھی خود پسند کر کے ان کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی، سعدیہ خاتون بہو پسند کر نے کے حق سے دستبردار ہونا نہیں چاہتی تھیں ، اس لئے ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ لڑکی دہلی کی نہیں ہے اس کے ہاتھ میں ذائقہ نہیں ہوگا اور نہ وہ گھر میں ہونے والی دعوتوں کا طعام گھر میں تیار کرسکے گی، بیٹے کو جذباتی مار بھی ماری، بھوک ہڑتال کی، دھمکی بھی دی ، مگر بیٹے کی ثابت قدمی دیکھ کر ہتھیار ڈال دیئے اور بیٹے کی خوشی میں راضی ہوکر مناہل کو بیاہ کر گھر لے آئیں۔
مناہل کیونکہ ڈاکڑ تھی اس لئے وہ باورچی خانے سے کوسوں دور رہتی تھی، ساس کا ہاتھ بٹانے کی کوشش میں ہمیشہ ان کا کام بڑھا دیا کرتی تھی جس پر سعدیہ خاتون کے ماتھے پر ہزاروں شکنیں پڑجایا کرتی تھیں مگر بیٹے کی پسند کوکچھ وقت دینے کے حق میں تھیں، اس لئے اسے پیار اور محبت سے گھر کے قاعدے اور اصول سمجھانے لگیں، مناہل ساس کے ہاتھ کے کھانوں کی دل کھول کر تعریف کرتی تھی اور اکثر فرمائش کرکے اپنی پسند کے کھانے پکوایا کرتی تھی ۔
مناہل تو روزانہ کی بنیاد پر گھر میں تین طرح کے کھانے اور ایک میٹھا دیکھ کر ہی حیران تھی کہ اسے معلوم ہوا محلے اور خاندان بھر میں روزانہ کی بنیاد پر کھانا بھیجنا اس گھر کا قانون ہے اور قانون شکنی کی اجازت نہیں ہے۔ مناہل نے حتی الامکان ساس کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر اس تیزی سے اور اتنا کام کرنا اس کے بس میں نہیں تھا، ﷲ شکرخورے کو شکر دے دیا کرتا ہے اور ارحم اور مناہل کو بیرون ملک اسکالر شپ مل گئی اس طرح مناہل کواس گھر کے قاعدے اور قانون سے آزادی کا پروانہ مل گیا۔
مناہل کے جانے کے بعد سعدیہ خاتون نے فیصلہ کرلیا کہ راحم کی شادی وہ دہلی کے گھرانے میں ہی کریں گی اور اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انھوں نے اپنے قاصد چاروں طرف پھیلا دیئے تھے کیونکہ وہ میکے سے ساتھ لاۓ گئے قانون سے قانون شکنی کرنے سے انکاری تھیں۔