Life in SusralWell-Being in Susral

دلیّ دور است- قسط 02

[ پچھلی قسط 01 ]

دلیّ دور است- قسط 02

مناہل کے جانے کے بعد سعدیہ خاتون نے فیصلہ کرلیا کہ راحم کی شادی وہ دہلی کے گھرانے میں ہی کریں گی اور اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انھوں نے اپنے قاصد چاروں طرف پھیلا دیئے تھے کیونکہ وہ میکے سے ساتھ لاۓ گئے کے قانون سے قانون شکنی کرنے سے انکاری تھیں۔

سعدیہ خاتون کے قاصد گلی گلی اور قریہ قریہ دہلی کی دختر ڈھونڈنے میں مصروف عمل تھے، مگر گوہر نایاب ملنا ناممکن سا لگ رہا تھا، راحم سعدیہ خاتون کا لاڈلا بیٹا تھا، اوربڑے بیٹے کے پردیس سدھارنے کے بعد ان کے بڑھاپے کا سہارا بھی تھا، وہ کسی قیمت پر بھی اپنی خواہش سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھیں، اب تو خاندان والوں نے بھی باتیں بنانا شروع کردیں تھیں کہ وہ بیٹے کی شادی ہی نہیں کرنا چاہتیں، سعدیہ خاتون کان لپیٹے بس دہلی کی لڑکی کی تلاش میں کمربستہ تھیں، ربِ کریم کو ان کی ثابت قدمی بھاگئی اور ایک رشتے کروانے والی خاتون کے توسط سے سدرہ کے بارے میں پتہ چلا جو بی بی اے کے لاسٹ سمسٹر میں تھی، بھرے پرُے گھر کی لڑکی تھی، آج کے دور میں جہاں مل جل کر رہنا ایک دوسرے کی آزادی چھینے کے مترادف تھا، وہاں سدرہ کا خاندان آج بھی ایک ہی چھت کے نیچے ہنسی خوشی رہ رہا تھا، دہلی کے گھرانے کا ہونے کے ساتھ ساتھ سدرہ کے خاندان کا مل جل کے رہنا سدرہ کی ایک اور خوبی بن گیا، سعدیہ خاتون کو تو لگتا تھا کہ ﷲ نے ان کی عبادت قبول کرلی ہے جو انھیں سدرہ کے بارے میں معلوم ہوا، رشتہ لے کر جانا اور قبول ہونا تو ابھی دور کی بات تھی، صرف دہلی کا تعلق سن کر ہی ان کا ریشہ خطمی ہو گیا تھا۔

سعدیہ خاتون نے رشتہ لے کے جانے کے لئے تیاری شروع کردی، فراز صاحب ان کی دیوانگی دیکھ کر ہنسنے لگے اور انھیں سمجھانے لگےکہ ”نیک بخت آج کے دور میں لڑکیاں پڑھائیوں میں مصروف ہوتی ہیں، اپنا کیرئیر بنانے میں سرگرم ہوتی ہیں“، سعدیہ خاتون کو بات پسند نہیں آئی اس لئے ماتھے پر بل ڈال کر دوبدو جواب دینے کے لئے میدان میں اتریں”ارے میاں کیسی باتیں کرتے ہیں آپ، کیا میں پڑھی لکھی نہیں ہوں؟ کیا مجھ میں شعور نہیں ؟ “۔ ” ارے بیگم آپ میری بات کا مطلب نہیں سمجھیں“ فراز صاحب بیگم کے تیوروں سے گھبرا گئے اور صفائیاں دینے لگے، ”جی بس اب عمر کے اس حصّے میں یہ ہی بات سنی رہ گئی تھی، ساری زندگی آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی چاکری کی اور آج سرتاج کہ رہے ہیں کہ میں ان کی بات کا مطلب نہیں سمجھتی“ سعدیہ خاتون نے طنزیہ لہجہ اپناتے ہوۓ فراز صاحب کے تمام کس بل نکال دئیے۔ ”ارے بیگم ہماری مجال کہ ہم آپ سے اختلاف کر سکیں، میرے دل اور گھر کی ملکہ، آج کی لڑکیوں کو گھر کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی“، فراز صاحب نے لفظوں کی مٹھاس بڑھاتے ہوۓ اپنا نکتہ نظر انھیں سمجھانے کی کوشش کی، ” بیگم رہی سہی کسر باہر کھانے کے رواج نے پوری کردی ہے اور تو اور اب تو ہوم ڈلیوری نے معاشرے میں نیا رنگ متعارف کروادیا ہے، گھرمیں کھانا پکانا اور گھر میں کھانا پکانے والوں کو اولڈ فیشن تصورکیا جاتا ہے“۔ انھوں نے نرم لہجے میں اپنی بات مکمل کی، فراز صاحب کے نرم لہجے میں کی گئی بات نے سعدیہ خاتون کوپتنگے لگا دئیے ”بس کردیں میاں پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں، مجھے تو حیرت ہے آپ کیسے دہلی والے ہیں؟ ارے ہم دہلی والوں کی گھٹی میں کھانا پکانا اور لوگوں کو کھلانا شامل ہوتا ہے، یہ ہماری روایت ہے اور ہم صدیوں پرانی روایت کے امین ہیں، ہم کیسے اپنی روایت سے منہ موڑ سکتے ہیں“۔ فراز صاحب کے پاس اب بچنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی تھی اس لئے ہمہ تن گوش ہوکر بیگم کی باتیں سننے لگے، ”اس لئے اس بار میں اپنی دہلی کی بہو لاونگی پھر آپ دیکھئے گا کیسے ہمارے دسترخوان کی رونق بڑھ جاۓ گی اور مشرقی کھانوں کے ساتھ ساتھ مغربی کھانوں کی مہک نہ صرف ہمارے گھر کو مہکاۓ گی بلکہ پورے خاندان کا ہر گھر اس ذائقے سے مستفید ہوسکے گا“، سعدیہ خاتون کے لہجے میں فخر ہی فخر تھا، ان کی آنکھوں میں یقین کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ فراز صاحب نے ان کے یقین کے کامل ہونے کی صدق دل سے دعا مانگی۔

رشتے کروانے والی کے ساتھ سدرہ کے گھر پہنچیں، ڈیفنس میں ہزار گز کا بنگلہ تھا جہاں گلزار صاحب کے چار بیٹے اپنے خاندان کے ساتھ سکونت اختیار کئے ہوۓ تھے، سدرہ سب سے چھوٹے بیٹے کی سب سے بڑی صاحبزادی تھی، سعدیہ خاتون کا پرتپاک استقبال کیا گیا، سدرہ اپنے نام کی طرح نازک اندام تھی، بڑی بڑی آنکھوں میں معصومیت کے ایسے ڈورے تھے کہ سعدیہ خاتون اس کی گرویدہ ہوگئیں، تمام گھرانے کے لوگوں کا رہن سہن اور بول چال چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ دہلی کی روایت اس گھر کا اوڑھنا بچھونا ہے، راحم سے متعلق تمام کوائف سے گھر والوں کو مطلع کرکے اپنے گھر آنے کی دعوت کے ساتھ ساتھ سدرہ کو پسندیدگی کی سند بھی دے دی۔

راحم چونکہ سارے اختیار ماں کو سونپ چکا تھا اس لئے سعدیہ خاتون اس کی طرف سے مطمئن تھیں، گھر آکر بہت خوش تھیں، ارحم اور فراز صاحب کو سدرہ اور اس کے خاندان کے بابت بتانے لگیں، وہ بہت پرجوش تھیں اور جلد سدرہ کو اپنے گھر لانے کے لئے پرعزم ۔

سعدیہ خاتون زندگی کی ہر دوڑ میں ثابت قدم رہ کر ہمیشہ جیت کا تاج پہن کر حاضرین محفل کی داد وصول کرنے کی عادی تھیں، لوگوں نے ہمیشہ ان کے کندھوں پر تھپکی دے کر ان کا حوصلہ بڑھایا تھا، پہلی بہو کے انتخاب پر بھی انھوں نے داد ہی وصول کی تھی مگر ان کو دہلی خاندان کی لڑکی نہ لانے کا قلق تھا جو اس بار وہ مٹانے کو تیار تھیں۔

0 0 votes
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments