!ذمےداری کے زیورات
ذمےداری کے زیورات!
زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنی ذات تو کہیں کھو گئی تھی۔ وقت کی کمی شاید رگ رگ میں سرائیت کر گئی ہے اس لئے کھبی کام رہ جاتا تھا تو کھبی خود کی ذات، کھبی خوشی ادھوری تو کھبی دکھ کی رات ختم نہ ہوتی تھی۔ وقت کی رفتار کے ساتھ ہم قدم ہونے کے چکر میں بھاگ بھاگ کر قدم لہولہان اور دل چھلنی۔ شکل دیکھو تو جھریوں زدہ، صحت دیکھی جاۓ تو برسوں کی بیمارمگر کاندھے پر ذمے داری کی گھٹڑیاں جو روز بہ روز اسے زمین میں دھنسا رہی ہیں۔ طلوع آفتاب کے ساتھ صبح ہوتی ہے اور پھر رات کا تو پتہ ہی نہیں ہے۔ سسرال کے جھیملے اور نوکری کی مصیبت، سعدیہ چکی کے دو پاٹوں میں صرف پس رہی تھی۔
ماں باپ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا، بھائیوں نے پہلا رشتہ آتے ہی نہ مرضی جانی نہ سوچنے کا وقت دیا اور ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہوۓ جھٹ منگی اور پٹ بیاہ کردیا۔ سسرال آئی تو معلوم ہوا کہ شوہر کی تنخواہ بہت کم ہے، اور اس کم آمدنی میں وہ ماں اور بہن بھائیوں کی ذمے داری اٹھاۓ کہ بیوی کے نازنخرے۔ سسر کی معقول پینشن پر ساس کی اجارہ داری تھی تو بیٹے کی تنخواہ پر ان کا حق۔ سعدیہ کی حثیثت محکوم کی سی تھی جو صرف جمہوریت کے منتظر تھے اور آمریت کے ڈنڈے کھانے پر مجبور، امید صبح کے انتظار میں رات کی تاریکی بھلی ضرور محسوس ہوتی تھی مگر روح پل پل مرتی ہے اور لمحہ لمحہ امید کی ٹوٹتی لڑی سانسوں کو جھنجھوڑتی ہے۔
بچوں کی پیدائش کے بعد جب ضروریات زندگی نے سعدیہ کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اسے تعلیم کے زیور کو استعمال کرنے کا خیال آیا اور انڈسڑیل ایریا میں موجود ایک فیکڑی میں نوکری کرنا شروع کی تو زندگی میں سکون تو نہیں آیا۔ البتہ کچھ امید بندھی تھی کہ مستقبل میں کہیں سکھ کے بادل بھی برسیں گےاور خوشحالی کی ہریالی سب کو نظر آۓ گی۔ فی الحال تو راوی نے قسمت میں صرف مشقت لکھی تھی۔
سعدیہ بہو تھی، ساس روایتی قسم کی تھیں… بہو کو صرف اپنا حریف سمجھتی تھیں اور اس کی نوکری کو اس کی عیاشی، اس لئے ساس کی طرف سے کوئی رعائت نہیں تھی، مگر اس کی تنخواہ پر ان کا پورا حق، بلکہ یہ کہنا زیا دہ بہتر ہوگا کہ اس گھر میں آنے والے ہر پیسے پر ان کا حق چاہے وہ سسر کی پینشن ہو، ان کے بیٹے یا بہو کی تنخواہ۔ وہ صرف رعائیتیں حاصل کرنے کی خواہاں تھیں، ان کی حصول میں کسی قسم کی تکلیف سے مبرا تھیں۔
سعدیہ صبح گھر کی صفائی کر کے سب کا ناشتہ بناکر دستر خوان لگایا کرتی تھی، بار با ر سب کو بلاکر ناشتہ کروانا اس کی ذمے داری تھی کیونکہ اس کی ساس بعد میں کسی کا ناشتہ نہیں بناسکتی تھیں اور کیونکہ سب کو دیر سویر گھر سے جانا ہی ہوتا تھا اسلئے تازہ ناشتہ سعدیہ نے بنا کر سب کو کروانا ہوتا تھا۔ ناشتے کے برتن دھونے کے ساتھ ہی دوپہر کا کھانا چڑھا دیا کرتی تھی، سسر کا پرہیزی کھانا بنتا تھا، دوپہر کے لئے سبزی، دال اور چاول۔ سلاد اور رائتہ کھانے کا اہم جز ہوتا ہے اس لئے وہ بھی بنایا جاتا تھا۔ اس سارے کام سے فارغ ہو کر بچوں کو تیار کرکے اسکول چھوڑنا بھی سعدیہ کا درد سر تھا کیونکہ تعلیم کی عیاشی سعدیہ کی خواہش تھی اور گھر میں کوئی اس درد سر کو اپنا سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ بچوں کو اسکول چھوڑتے ہوۓ وہ اپنی فیکڑی کی راہ لیتی تھی۔ اس ساری زمے داریوں میں وہ اپنا ناشتہ کرنا اور کبھی تو منہ دھونا بھی بھول جاتی تھی، کبھی ملگجے کپڑوں میں، مگر کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ سب کے لئے پکانے والی بھوکی ہے۔
فیکڑی میں پہنچتے ہی ڈھیروں کام اس کو گلے لگا لیتے تھے اور وہ روزی حلال کرنے کے لئے کمر بستہ، زندگی میں کیونکہ ذلالت نے اس کا پیچھا لیا ہوا ہے اس لئے قسمت کی سختی یہاں بھی اسے جھیلنی پڑتی ہے۔ مالکان ضرورت سے زیادہ مہربانیاں، اگر ان کی مہربانی کا جواب نہ دیا جاۓ تو بے انصافیوں کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ گھر سے باہر نکلی ہوئی عورت سب کے لئے مفت کا مال ہوتی ہے، لوگ اس کی مجبوری کو نہیں اس کے جسم کو دیکھتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں بھوک نظر نہیں آتی بلکہ اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے اس کے وجود کو چھلنی کرتے ہیں۔ کبھی محبت کا جھانسا دے کر اور کبھی ہمدردی کی آڑمیں اس تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ سعدیہ کی کل کائنات چونکہ اس کا کردار تھا جس کو کسی قیمت پر وہ قربان نہیں کر سکتی اس لئے اسے ہمیشہ مالکان کے عتاب کا نشانہ بنناپڑتا ہے ۔ محنت کرنا کیونکہ گھٹی میں پڑا ہوا ہے تو کام ایمانداری اور لگن سے کرتی تھی اس لئے بہت جلد اس نے اپنا مقام بنالیا تھا. سیٹھ کی نوازشات کو رد کرکے بھی کامیاب تھی اس لئے امید رکھتی کہ ﷲ کبھی اس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دے گا. زندگی کی گود سے امید جنم لیتی ہے اس لئے امید کو سر پر تان کر سفِر حیات کی کشیدگی کوکم کرنے کی کوشش کی۔
سسر دوپہر سے بچوں کو اسکول سے واپس لے آیا کرتے تھے، کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوت بنگلے میں نہیں چھوڑ سکتے تھے، وہ ڈروانی فلموں کے دلدادہ تھے اس لئے انھیں لگتا تھا کہ ہر اسکول میں دوپہر کے وقت استانیاں چڑیلیں بن جاتی ہیں اور بچوں کا خون چوستی ہیں۔ انھیں اپنے بیٹے کے بچوں سے بہت محبت تھی اس لئے وہ انھیں چڑیلوں سے بچا کر اپنی آغوش میں چھپا لیتے تھے۔ جو بھی تھا سعدیہ کے لئے یہ قابل سکون بات تھی۔
شام کو تھکی ہاری وہ رات کے پکانے کا سامان ساتھ لاتی تھی ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بچوں کا یونیفارم بدلوا کرانھیں ہوم ورک کروانے بیٹھاتی اور باورچی خانے میں جاکر چاۓ بناتی، اس کا احساس کرتے ہوۓ اس کے سسر چاۓ کے لوازمات بازار سے لے آتے۔ سب کو چاۓ دے کر بچوں کے پاس آبیٹھتی اور کھانے کامصالحہ تیار کر تی۔ اس کے ہاتھ تیزی سے کام کررہے ہوتے کیونکہ آٹھ بجے سب نے کھانا کھانا ہوتا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر بچوں کا یونیفارم دھوتی، کچن سمیٹتی، ساس اور سسر کو دودھ دیتی اور شوہرکا انتظار کرتی کہ وہ آجاۓ تو دونوں کھانا تو کم از کم ساتھ کھا لیں، اس بیچ وہ گھر والوں کے کپڑے استری کیا کرتی تھی، اور میاں کا انتظار کرتے کرتے آنکھ بھی لگ جاتی، سوتی جاگتی آنکھوں میں امید لئے اچھے دنوں کی آس لگا تی۔
سعدیہ نے ربِ کعبہ سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر کر لیا تھا، وہ خلق خدا سے زیادہ خدا کو راضی کرنے لگ گئی تھی، وہ ان عورتوں کی زندگی پر رشک کرتی تھی جو گھر بیٹھ کر گھرداری کرتی ہیں، اپنے بچوں کی شرارتوں پر محظوظ ہوتی ہیں، ان کی بیماری پر ان کی پٹی سے لگ جاتی ہیں، جو اپنے ہاتھوں سے نوالے بناکر ان کا ناز اْ ٹھاتی ہیں، ان کا رزلٹ دیکھ کر انھیں سینے سے لگاتی ہیں ، کم نمبر پر ان کی دل جوئی کرتی ہیں، قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتی ہیں، دادا دادی کی ڈانٹ کے آگے ڈھال بن جاتی ہیں۔ سعدیہ تو شاید بچوں کی ماں سے زیادہ باپ بن گئی تھی جو ان کی ضروریات پوری کرتی تھی، اس کے ممتا کے جذبات پدرانہ شفقت میں کہیں ضم ہوگئے تھے، ماں کا کردار تو ا س کے بچوں کی زندگی میں تھا ہی نہیں، باپ تو ذمے داریوں کے بھینٹ چڑھ گیا تھا، لیکن وہ پھر بھی شاید چھٹی کے دن کچھ وقت گزار لیتا ہے جبکہ سعدیہ تو چھٹی والے دن ساس کی بہو بن جاتی ہے جو صرف ساس کی محکوم ہوتی ہے۔ سعدیہ نے نہ تو ماں کی ممتا دیکھی تھی نہ باپ کی شفقت کی گرمی کومحسوس کیا تھا۔
اس نے کہیں پڑھا تھا کہ جو نصیب ماں کے ہوتے ہیں وہی اس کی اولاد کے ہوتے ہیں ، ماں تھی اپنے نصیب پر شاکی تو نہ تھی مگر اولاد کے لئے ایسے نصیب نہیں مانگتی تھی، اولاد کے لئے ہی محنت کر رہی تھی اور اس مشقت نے اس کی ممتا چھین لی تھی۔
وقت کی کمی نے اس سے ممتا چھینی اور بیوی کے ناز نخرےاس سے روٹھے، وہ وقت کی کمی کا شکار تھی ۔ جو شاید معاشرے کا المیہ ہے، وقت تو اب سب کا حاکم ہے اور سب اس کے محکوم، وقت تو رنگ ماسٹر بنا سب کو نچا رہا ہے، کوئی رو رو کے ناچ رہا ہے تو کسی کی آہ وبکا درودیوار کو لرزا رہی ہے، مگر رنگ ماسٹر ہنٹر لئے سب کے پیچھے مانند عزرائیل پڑا ہے، آگے کنواں پیچھے کھائی ہے، کیونکہ اگروقت سے پیچھے چلتے ہیں تو وہ کچل جاۓ گا اور اس کے ہم قدم چلنے کے چکر میں ہم سب شکستہ پا ہیں۔ سب ورکنگ وومنزاس بھاگ دوڑ میں نہ جانے کتنے رشتے، ارمان، جذبات، احساس، خیالات اور نہ جانے کیا کچھ کھو رہی ہیں اور وقت نے ہم عورتوں کو خوبصورت سے زیورات کی شکل میں ذمے داری کو ہمارے وجود کا حصہ بنا دیا ہے اور آزادی کا جھانسہ دے کر مرد کے روبرو کر دیا ہے۔ مرد صرف نوکری کرتا ہے اور عورت نسِل آدم کی امین بھی۔