فیصلہ کرنے کا حق؟ ۔ قسط 02

[ پچھلی قسط 01 ]

فیصلہ کرنے کا حق؟ ۔ قسط 02

سارہ اپنی کوکھ سے جنی بچی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی تھی کیونکہ وہ ثانیہ کو اپنے ساتھ جہیز میں نہیں لائی تھی۔

سیدہ خاتون اپنا فیصلہ سنا کر فرعونیت کا لبادہ اوڑھے تخلیہ کا حکم دے مطمئن ہو چکی تھیں، وہ بھی اپنا بیٹا جہیز میں نہیں لائی تھیں مگر وہ سارہ کی طرح کم ہمت نہیں تھیں اور ان کے شوہر زوجہ سے خوفزدہ تھے جبکہ ارشد توماں کا لخت جگر تھا۔ جو بیٹے ماں کے جگر کا ٹکرے ہوتے ہیں ان کے دلوں میں بیوی کی محبت کی کونپل پھوٹ نہیں سکتی۔ محبت کے تناور درخت کے لئے بیچ کو مٹی میں ضم ہونا پڑتا ہے تو محبت کا ہالہ وجود کا حصہ بنتا ہے۔ ماں کے لاڈلے زندگی ماں کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ماں کی خوشنودی کے لئے بیوی کی حق تلفی کی جاسکتی ہے۔

“سارہ تم اماں کی بات کو سمجھتی کیوں نہیں ہو؟ کیا اماں ثانیہ کی دشمن ہیں؟ تم پڑھی لکھی ہوکر اتنی کم نظر اور تنگ دل کیسے ہو سکتی ہو؟ صر ف اماں کو نیچا دیکھانے کے لئے تم اس بچی پر ظلم کرنا چاہتی ہو، میری ماں اتنے چاؤ سے تمہیں بیاہ کے لائی تھیں، مگر تم تو ان کے خلاف ہوگئی ہو؟” کمرے میں آتے ہی ارشد بغیر رکے بولنا شروع ہوگیا۔ سارہ دم سادھے ارشد کے فرمودات سن رہی تھی۔

“میری بات سمجهو سارہ! ﷲ کا دیا کیا نہیں ہے ہمارے پاس، اتنا بڑا کاروبار ہے کہ اگلی نسلیں آرام سے بیٹھ کے کھا سکتی ہیں، بھیا کا کوئی بچہ نہیں ہے، سب ثانیہ کا ہی ہے؟ تم کیوں پریشان ہوتی ہو اس کا مستقبل محفوظ ہے؟” ارشد نے مدبرانہ انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ سارہ کو اندازہ تھا کہ اس وقت ارشد سے کوئی بھی بات کرکے کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لئے خاموش رہنے میں عافیت جانی۔

اگر سارہ جہیز میں بیٹی نہیں لائی تو کیا وہ اس کے مستقبل کے فیصلے کا حق نہیں رکھتی تھی؟ عورت تو کمزور ہو سکتی ہے؟ کیا ما ں بھی کمزور ہو سکتی ہے؟ حاجرہ تپتے صحرا میں تنہا تھیں، شیر خوار اسماعیل پیاس سے بلک رہے تھے، پیاس تو آلِ ابراہیم کی تھی، ابراہیم کوسوں دور تھے، تڑپ ماں رہی تھی اورصحراۓ بیابان میں فرزندِ ابراہیم کی تکلیف دور کرنے کے لئےلاچار ہونے کے باوجود تلاشِ آب میں سرگرداں، ماں کی تڑپ پر میشت ایزدی جوش میں آتی ہے اور اسماعیل کے پیروں کے رگڑ سے چشمہ جاری ہوتا ہے، ممتا کی عظمت کو مانتے ہوۓ ربِ محمد ﷺ نے اسے حج کا رکن بنا دیا، ماں کی عظمت اور ہمت کو ہر مسلمان خراج پیش کرتا ہے، ہر سال اور رہتی دنیا تک ان گنت مسلمان ماں کے عزم کو خراج پیش کرنے کے پابند ہیں۔ ﷲ نے بھی اپنی محبت کے لئے ماں کی مثال دی، تو کیا ماں کمزور ہوسکتی ہے؟

سارہ کے والد ہائی اسکول میں استاد تھے، سارہ کے گھر میں تعلیم ہی اوڑھنا بچھونا تھی، ماں باپ نے ساری زندگی علم کی راہ پر چلنا سیکھایا، زیور کے نام پر صرف تعلیم ہی جہیز میں دی۔ سارہ جانتی تھی کہ تعلیم کا مقصد پیسہ کمانا نہیں تھا، تعلیم تو صرف شعور ہے۔ مگر ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ تعلیم کو حصوِل رزق سے جوڑتے ہیں، ارشد جس نے لمز یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسڑیشن میں ڈگری حاصل کی ہو، وہ انسان بھی بیٹی کی پڑھائی کا مخالف ہوگا۔

سارہ ساس کی بے اعتنائی، جیٹھانی کی مخالفت، نند کی ذلت سب برداشت کر سکتی تھی مگر بیٹی کی تعلیم پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھی، سب اس کے مخالف تھے مگر وہ اپنی بیٹی کو اس حق سے محروم رکھنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ کام بہت مشکل تھا مگر اولاد کے لئے تو چڑیا بھی سانپ سے لڑجاتی ہے اور سارہ اماں حاجرہ کی طرح صحراۓ بیابان میں نہ تھی مگر حاجرہ کی طرح تنہا تھی اس لئے حاجرہ کی طرح پرعزم اور تن تنہا اولاد کی ضرورت پوری کرنے کے لئے معجزے کی طلبگار۔

سارہ سمجھ بوجھ رکھتی تھی اور جانتی تھی لڑجھگڑکر وہ اپنی بات کبھی نہیں منواسکتی، ساس کی مرضی کے بغیر اس گھر میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا اور اپنی بات منوانے کے لئے اسے دلائل دینے کی ضرورت تھی جہاں یقین ِکامل ہو، راستے بھی وہیں سے نکلتے ہیں۔

سیدہ خاتون کے بھائی عرصہ دراز سے بیرون ملک میں مقیم تھے، ہر پاکستانی کی طرح قبر کے لئے دو گز زمین پاکستان میں ہی چاہئیے تھی تو یہودیوں کو خیر باد کہہ کر وطن میں آکر آباد ہوگئے ، اور شومئی قسمت سیدہ خاتون کے پڑوس کو ہی آباد کیا۔

ماموں صاحب مغربی اور مشرقی تہذیب کا بہترین امتزاج تھے، اپنی روایات کے دلداہ لیکن سرسید کی طرح غلط رسم ورواج کے خلاف تنہا مرد ِ مجاہد۔ ممانی صاحبہ پڑھی لکھی اور باشعور خاتون تھی اور انھوں نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل کو جدید تعلیم سے بھی آراستہ کیا، حصول ِتعلیم میں بیٹی اور بیٹے میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی، بیٹی ڈاکڑ اور بیٹے انجینئر تھے، خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ، مگر خوبصورتی ان کے اور تعلیم کے بیچ نہیں آئی۔

پاکستان شفٹ ہونے کے دوران سارہ نے ان کی ہر طرح کی مدد کی، گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کے طعام تک ہر کام میں پیش پیش رہی۔ ماموں ممانی اس کی خوبیوں کے معترف ہوچکے تھے اور سیدہ خاتون سے کئی بار اس بات کا ذکر بھی کر چکے تھے۔

روزانہ کی طرح ماموں اور ممانی شام کی چاۓ پر آۓ ہوۓ تھے، بھابھی نے دہی بھلے بناۓ ہوۓ تھے، شام کی دلفریب ہوا سے سب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ماموں صاحب نے ثانیہ سے اے، بی، سی سنانے کو کہا، ثانیہ منہ کھولے ان کی بات سن رہی تھی۔ ماموں صاحب نے چاکلیٹ کا بھی لالچ دیا مگر سب بے سود۔۔۔

“میری شہزادی مجھے سناۓ گی آپ تو بچی کو ڈرا رہے ہیں، آپ کو تو بچوں سے بات کرنی ہی نہیں آتی،” ممانی ثانیہ کو پچکارنے لگیں، ممانی کی توجہ پاکر ثانیہ مسکرانے لگی مگر اس بار بھی خاموش رہی۔ سارہ زمین پر نظریں گاڑے نجانے کون سا خزانہ ڈھونڈ رہی تھی۔ سیدہ خاتون سے برداشت نہیں ہوا اور کہنے لگیں”ارے مُنے یہ اسکول نہیں جاتی۔“

“کیوں آپا؟” ماموں صاحب نے حیرانگی سے پوچھا، “ارے اس میں کیوں کا کیا مطلب؟ کیا کرے گی پڑھ کر؟ ماں صدقے اس کا باپ زندہ ہے اچھے سے اچھا کھلا سکتا ہے، اس نے کون سی نوکری کرنی ہے،” سیدہ خاتون ذرا اونچی آواز میں بولیں، “میری آپا ہوکر آپ ایسی باتیں کریں گی،” ماموں صاحب دکھ سے بولے۔ اب کی بار ان کو اپنے لہجے کا احساس ہوا تو ذرا مدہم آواز میں بولیں، “دیکھ مُنے تجھے معلوم تو ہے بڑی بہو کی کوئی اولاد نہیں ہے کتنی منتیں مانگیں ہم نے، حق ہا! مگر ﷲ کی مرضی، سالوں بعد ﷲ نے ایک پوتی دی ہے، میں ایک پل کے لئے بھی اسے نظروں سے اوجھل نہیں کر سکتی، ویسے بھی لڑکی ذات ہے اور نگوڑ مارے اسکولوں میں اتنا ظلم کرتے ہیں، بچوں سے ان کا بچپن ہی چھین لیتے ہیں۔”

“آپا! آپ ابّا میاں کی تربیت بھول گئیں؟ کیا کبھی انھوں نے بیٹا بیٹی میں فرق کیا تھا؟” ماموں صاحب افسردہ ہوکر بولے، “ارے میں کیوں ابّا کی باتیں بھولوں گی لیکن وہ وقت اور تھا مُنے؟” سعیدہ خاتون نظریں چرا کر بولیں، “کیا اور وقت ہے آپا؟” ممانی صاحبہ نے بھی اس بحث میں اپنا حصہ ڈالا، “دیکھو یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے؟ تم اس میں ٹانگ مت اڑاؤ،” سعیدہ خاتون ہتے سے ہی اُکھڑ گئیں۔

ماموں صاحب اور ممانی صاحبہ نے سعیدہ خاتون کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا، حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ “سارہ تم بتاؤ تم ماں ہو، تمہیں احساس نہیں ہے کہ تمہاری بیٹی پر کتنا ظلم ہورہا ہے؟ کیسی ماں ہو تم؟” ماموں صاحب نے اس بار سارا نزلہ سارہ پر گرایا۔ “میں کیا کر سکتی ہوں؟ ماموں صاحب،” سارہ ہکلانے لگی۔ “اور ارشد تم نے پڑھ لکھ کر گنوایا ہے؟ یہ شعور دیا ہے تمہیں تعلیم نے، صحیح اور غلط میں فرق نہ کر سکو؟ اکیسوی صدی میں تم اس طرح کی باتیں سوچتے ہو؟ شرم سے ڈوب مرو۔۔” ماموں صاحب غصّے سے کانپنے لگے۔

“ارے نگوڑ ماری جا جا کے پانی لے کے آ، نظر نہیں آرہا تجھے کیا حالت ہوگئی میرے بھائی کی؟” ماموں صاحب کی حالت دیکھ کر سعیدہ خاتون پریشان سی ہوگئیں۔ “نہیں چاہئے مجھے پانی، ارے مجھے تو دکھ ہورہا ہے کہ میرے خاندان کے لوگ اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں، میرے والدین کی تربیت بھول گئی میری بہن، کیا منہ دکھاؤ گا روزِقیامت اپنے باپ کو؟” ماموں صاحب روہانسے ہوگئے ۔

“مُنے یہ کیا بات کی تم نے؟ میں نے ساری زندگی کبھی امّاں ابّا کی تربیت پر حرف نہ آنے دیا، پیازسے بھی روٹی کھائی کبھی سسرال کی برائی نہ کی، ہر حال ﷲ میں کا شکر ادا کیا، تمہیں ماں جائی پر ایسا الزام لگاتے شرم نہ آئی؟” سعیدہ خاتون ڈوپٹے کے پہلو سے آنسو پوچنے لگیں۔

ماموں صاحب بہن کا رونا نہ دیکھ سکے اور انھیں گلے لگا کر ان کے ماتھے کا بوسہ لیا، مگر بولے کچھ نہیں، ساکت چہرہ لئے کھڑے رہے۔ بہن کے خاموش ہوتے ہی ممانی صاحبہ کو چلنے کا اشارہ کیا اور بغیر کچھ بولے خاموشی سے گھر کی دہلیز پار کر گئے۔

ماموں صاحب کی خاموشی سے سعیدہ خاتون پریشان ضرور ہوئیں مگر ان کے گلے لگانے کو اچھا شگن جانا اور سکھ کی آس لگانے لگیں۔

ماموں صاحب کے رویئے کو دیکھ کے سارہ کے دل میں امید کی کرن جاگی اور اس نے صدق دل سے ﷲ کا شکر ادا کیا تھا کہ اس نے ماموں صاحب کی شکل میں فرشتہ بھیج دیا تھا۔ وہ رب جو شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ ایک ماں کو کیسے نا امید کر سکتا ہے۔

[ جاری ہے۔۔۔ قسط 03 ]

0 0 votes
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments