Life with Kids in SusralParenting in Susral

فیصلہ کرنے کا حق؟ ۔ قسط 03

[ پچھلی قسط 02 ]

فیصلہ کرنے کا حق؟ ۔ قسط 03

وہ رب جو شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ ایک ماں کو کیسے نا امید کر سکتا ہے۔

ماموں میاں کے گھر سے رخصت ہونے کے بعد گھر کے ماحول میں عجیب سی خاموشی نے بسیرا کر لیا تھا، سیّدہ خاتون نے اپنے کمرے میں ایک ہنگامی میٹنگ بلوائی جس میں سارہ کے علاوہ سب موجود تھے، امّاں کی گھن گرج پورے گھر میں سنی جا سکتی تھی، سسر صاحب بار بار انھیں تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے مگر امّاں کا پارہ نیچےآنے کا نام نہیں لے رہا تھا، بھیا اور بھابھی بھی سیّدہ خاتون کے ہم نوا لگ رہے تھے، ارشد کے ممننانے کی آوازیں سارہ کو مزید پریشان کر رہی تھیں، خیر ڈیڑھ گھنٹے بعد محفل برخاست ہوئی، بند کمرے میں نہ جانے کیا فیصلے ہوۓ تھے۔

امّاں نماز پڑھ کر وظائف میں مصروف تھیں، سارہ دو بار انھیں دیکھ کے جاچکی تھی مگر آج انھیں مقررہ وقت سے زیادہ وقت لگ گیا تھا، سارہ نے کھانا گرم کر کے دستر خوان لگا یا اور سب کو بلانے لگی، سب ان کے منتظر تھے اور وہ عبادت میں مشغول، سسر صاحب کے اصرار پر سیّدہ خاتون آ تو گئیں مگر چند لقمے ہی زہر مار کئے، آج تو انھیں ثانیہ کی قلقاریاں بھی قہقہہ لگانے کی طرف مائل نہیں کرسکی تھیں، سیّدہ خاتون کا رویہ سب نے محسوس کیا اور اسے شام کی بدمزگی کا اثر جان کر سب خاموش ہوگئے ۔

سارہ باورچی خانے کا تمام کام مکمل کرکے کمرے میں آئی تو دیکھا ثانیہ اور ارشد دونوں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، ثانیہ باپ کے سینے پر سر رکھے معصوم سی گڑیا محسوس ہورہی تھی، سارہ نے ارشد کا سایہ تا عمر ثانیہ کے سر پر قائم رہنے کی دعا کی، اور اسے ارشد کے سینے سے ہٹا کر پلنگ پر لٹایا، اسی اثناء میں ارشد کی بھی آنکھ کھل گئی اس نے بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اسے کمبل اڑایا۔ سارہ!! ارشد نے اسے پکارا اور اس کا ہاتھ پکڑکر پاس بٹھایا ”سارہ!! امّاں آج بہت پریشان تھیں اور تم اس کی وجہ جانتی ہو؟“ ارشد نے نرمی سے سارہ سے کہا، ”ارشد اس سب میں میرا کیا قصور؟“ سارہ نے روہانسی سے ہوکر پوچھا، ”میں نے کب کہا اس میں تمہارا قصور ہے؟ لیکن تم یہ ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟“ ارشد نے الجھتے ہوۓ کہا- ”ارشد آج شام کے واقعے میں میری کیا غلطی؟“ سارہ اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوۓ بولی، ” تم کیا چاہتی ہو کہ امّاں اور ماموں صاحب کے درمیان دوریاں پیدا ہوجائیں؟ تم نے ماموں صاحب سے کیوں نہیں کہا کہ تم نہیں چاہتی کہ ثانیہ اسکول جاۓ، تم نے جان کر سارا الزام امّاں کے سر ڈال دیا، بولو میں کیا غلط کہہ رہا ہوں؟“ ارشد نے سخت لہجے میں سارہ سے سوال کیا ”واہ ارشد الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، آپ خود بھی وہاں موجود تھے آپ نے یہ الزام اپنے سر کیوں نہ لیا، جب میں چپ تھی آپ بھی چپ تھے تو امّاں بھی خاموشی سے سن لیتی ناں، کیا میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ ماموں صاحب کو بتائیں“ سارہ نے بھی دوبدو جواب دیا، ”یہ ہی تو فرق ہے تم میں اور امّاں میں ان سے ثانیہ کی شرمندگی نہیں دیکھی گئی، تم کیسی ماں ہو تمہیں بیٹی شرمندہ ہوتی اچھی لگ رہی تھی، صحیح کہتی ہیں امّاں تم میں ماں والی خوبیاں ہی نہیں، تم ظالم ہو؟؟“ ارشد کی آواز اور اونچی ہوئی۔”ارشد یہ آپ کے الفاظ ہیں یا امّاں نے یہ جملے آپ کے منہ میں ڈالے ہیں“ سارہ بھی زرا بے خوف ہوکر بولی ”میں کیسی ظالم ہوں جس کی بیٹی پر ظلم ہورہا ہے اور وہ احتجاج بھی نہیں کرسکتی، واہ اور مظلوم آپ سب ہیں“ سارہ رونے لگی، ”زبان دیکھو گز بھر لمبی ہے تمہاری، جب میرے سامنے اتنی چل رہی ہے تو تم اکیلے میں تو میری ماں کا جینا حرام کردیتی ہوگی، کیا فائدہ ایسی پڑھائی کا جو تمھیں بڑوں کی عزت کرنا نہیں سکھا سکی، میں تو باز آیا ایسی تعلیم سے، ناں بابا مجھے ایسی تعلیم نہیں دلوانی اپنی بیٹی کو“ ارشد نے قطعی لہجے میں بولا ”اور کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو تم جاہلوں کی طرح ٹسوے بہانے بیٹھ گئی ہو، گھر کا ماحول تباہ کر دیا تم نے، سالوں بعد میرے ماموں آۓ تم سے میری ماں کی خوشیاں دیکھی نہیں گئی، حاسد ہو تم-“ ارشد الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگا، سارہ کے رونے میں مزید شدت آگئی ارشد نے ثانیہ کو گود میں اٹھایا اور اسے لے کر سیّدہ خاتون کے کمرے کی طرف چل پڑا۔

سارہ ظالم تھی اس لئے ارشد اپنی بیٹی کو ظالم سے چند لمحوں کے لئے دور کرنا چاہتا تھا۔ سارہ اپنے آنسوؤں کے ساتھ تنہا تھی، چونکہ وہ ظالم تھی یہ تنہائی اس کی سزا تھی۔ اس سزا میں اس کے آنسو اس کے غم گسار تھے جو اس کے ساتھ تھے اور اسے تنہا ہونے کا احساس نہیں ہونے دے رہے تھے، روتے روتے نہ جانے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی اور وہ سوگئی۔

رات بھر رونے کی وجہ سے سارہ کی آنکھ مقررہ وقت پر کھل نہ سکی، اور چونکہ وہ سب میں ظالم تھی اس لئے کسی نے اسے ناشتہ بنانے کے لئے نہیں اٹھایا، اور یہ ذمے داری بڑی بھابھی کے سر آگئی اس لئے ان کی بڑبڑاہٹ عروج پر تھی، آج سالوں بعد بھابھی جان کو معلوم ہوا کہ گھر والوں کے ناشتے کے معاملے میں بہت نخرے ہیں اور یہ کہ اس زمانے میں کون پراٹھے کھاتا ہے، ڈبل روٹی سے بھی تو ناشتہ ہو سکتا ہےوغیرہ وغیرہ، انھوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ وہ اب دوپہر کے کھانے میں کوئی کام نہیں کریں گی۔ سیّدہ خاتون نہ جانے کس مصلحت کے تحت خاموش تھیں نہیں تو ان کے سامنے کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی بولنے کی۔ جب سے ماموں صاحب پاکستان آۓ تھے پہلی بار ایسا ہواتھا کہ ماموں صاحب بہن کے گھر نہیں آۓ تھے، امّاں بار بار ان کی منتظر تھیں ، کئی بارگلی میں جھانک چکی تھیں، بھائی کے مزاج سے واقف تھیں کہ اگر کوئی بات گراں گزرے تو خاموش ہوجاتے ہیں۔

سیّدہ خاتون اس وقت ضمیر کی عدالت میں کھڑی تھیں ،بھائی کی ناراضگی نے انھیں بچپن کے آنگن میں پہنچا دیا تھا جہاں پیپل کے درخت تلے ابّاجان سب بھائی بہنوں کو صبح سویرے نمازاور قرآن پڑھانے کے بعد تختی پر سبق دیا کرتے تھے، جو اچھی لکھائی کے ساتھ جلدی کام کر تا اسے دو آنے زیادہ دیئے جاتے تھے اور ہمیشہ بھائی کی نسبت سیّدہ خاتون کو زیادہ انعام ملتا، کیوںکے وہ معاشرے کی پابندیوں کی وجہ سے اسکول جانے سے قاصر تھیں پھر بھی بھائی سے پہلے کام کرلیتی تھیں کیونکہ وہ زیادہ ذہین اور محنتی تھیں ۔ خاندانی مخالفت کے باوجود ابّا نے انھیں مڈل تک پڑھایا تھا اور پورے خاندان کے سامنے سینہ چوڑا کر کے بیٹی کا مڈل پاس ہونا بتاتے تھے۔

انسان خود سے تو مکر سکتا ہے اور اپنے فیصلوں پر قائم رہنے کے لئے ہزاروں تاویلیں پیش کرسکتاہے مگر ضمیر کی عدالت میں وہ وکیل بھی خود ہوتا ہے اور مجرم بھی خود اور منصف اس کی اپنی ذات۔ اس وقت سیّدہ خاتون منصف، وکیل اور مجرم بھی خود تھیں۔

0 0 votes
Article Rating
SidrahArif

SidrahArif

میں ایک حساس انسان ہوں۔ معاشرے میں موجود ۃر بات کا اثر لیتی ہوں،اسلئے قلم کے ذریعے اثر کم کرنے کی کو شش کرتی ہوں۔ شاید کسی کی زندگی میں کوئی اثر چھوڑ سکوں۔ خود کو پرسکون کر سکوں۔ معاشرتی برائیوں کو مخمل میں لپیٹ کے پہش کرسکوں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments