دوپٹہ سنبھالو باجی

جب بھی کوئی بائیک والے صاحب کسی دوسری بائیک پر سوار خاتون کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں تو مجھے ڈراموں میں دکھائی جانے والی خواتین یاد آجاتی ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ایک سین میں بتاؤں کہ دوپٹہ سنبھالو باجی…… لیکن کیسے کہوں؟ ان کے جسم پہ تو دوپٹہ سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے۔

دوپٹہ نہ پہننے کو آج کل ایک اسٹیٹس سمبل بنا دیا گیا ہے۔ اگر انسان کو امیر دکھانا ہے تو اسے شلوار قمیص تو پہناؤ لیکن دوپٹہ نہ پہناؤ وہ امیر لگنے لگے گا۔ اور آج کل کی لڑکیاں اس ٹرینڈ کو بہ خوبی نبھا رہی ہیں۔ آج کل کی نوجوان نسل کی لڑکیاں دوپٹہ پہننا اپنی توہین سمجھتی ہیں۔

دوپٹہ ایک خوبصورت ترین لباس ہے۔ نہ صرف یہ انسان کو ڈھکنے کے کام آتا ہے بلکہ یہ عورت کے تقدس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اسے رعب عطا کرتا ہے۔ اگر آپ نے کبھی غور کیا ہو تو جب خواتین کا دوپٹہ اڑتا ہوا کسی کو چھو جاتا ہے تو خود بخود دوسرے انسان کے قدم پیچھے ہٹتے ہیں۔ اگر تو آپ دوپٹہ لور ہیں تو آپ نے یہ پرہیبت احساس ضرور محسوس کیا ہوگا اور اگر آپ دوپٹہ سرے سے پہنتی ہی نہیں تو جائیے محترمہ یہ منہ اور مسور کی دال۔

اگر آپ دوپٹہ نہیں پہنتیں تو میری بات مان کر صرف ایک ہفتہ تک صرف تجربہ کے لئے دوپٹہ پہن کر دیکھیں۔ اگر آپ کو مزہ نہ آئے تو چھوڑ دیجئے گا۔ اگر پسند آئے تو پھر اگلا ایک ہفتہ سر پہ اوڑھ کر گھومنے کا تجربہ کر لیجئے گا کیونکہ انسان کو ترقی کرتے رہنا چاہئے۔ ہم ترقی کو کسی چیز میں اضافہ مانتے ہیں پھر کپڑوں میں کمی کس طرح سے ترقی اور ماڈرنزم کہلاسکتا ہے؟

میرا مقصد کسی کی ٹرولنگ کرنا نہیں ہے لیکن صرف یہ باور کرانا ہے کہ لباس کی ضرورت انسان کو ہوتی ہے۔ لباس کو انسان کی ضرورت نہیں ہے۔لباس ہی وہ واحد پرسنل چیز ہے جس کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازدواجی تعلق کو لباس سے تشبہیہ دی ہے کیونکہ یہ انسان کے جسم سے براہ راست جا کر جڑ جاتا ہے۔

آپ اپنے لباس پہ توجہ دیتے ہیں تو تھوڑی توجہ دوپٹے کو بھی دے دیں۔ اکثر لوگ دوپٹہ نہ پہننے کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ ٹوپیس لیا تھا اس کے ساتھ دوپٹہ نہیں تھا اس لئے ہم نے نہیں پہنا۔تو اس کے لئے میری گذارش ہے کہ ون پیس لیں تو اس کے ساتھ بھی کچھ نہ پہنیں۔ اگر تو شرٹ لیں تو ٹراؤزر نہ پہنیں اور اگر ٹراؤزر لیا ہے تو شرٹ نہ پہنیں۔

دوپٹہ نہ استعمال کرنے والی خواتین کو سسرال میں اکثر بد نظری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ خود کو اچھی طرح سے ڈھک کر گھوم رہی ہوں پھر بھی آپ کو ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑے تو پھر آپ دھڑلے سے شکایت کرسکتی ہے۔ لیکن اگر چور کی ہی داڑھی میں تنکا ہوا تو کیسے جناب؟ کیسے شکایت کا دفتر کھولا جاسکتا ہے۔

اللہ کے قائم کردہ اس نظام دنیا میں ہر چیز ہمیں صراحت و بلاغت سے سمجھانے کے لئے بہت سی چیزوں کو ہمارے لئے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ دوپٹہ یا اوڑھنی بھی انہی چیزوں میں سے ایک ہے۔دوپٹے کا محض مقصد خود کو ڈھکنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ لباس ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر وہ چیز جو یادہ نظر آنے والی ہو اس کو ڈھکنا چاہئے جیسے کہ آپ کو اللہ نے زیادہ دولت شہرت عزت دی ہو تو اسے ڈھک کر عاجزی اختیار کر لیجئے آپ زمانے کی بری نظروں سے بچ جائیں گے۔ اگر اللہ نے آپ کو اولاد کی نعمت سے مالا مال کیا ہے تو عاجزی سے ان کی پرورش میں دھیان دیں اچھی تربیت کریں اپنی اور ان کی دنیا و آخرت سنوار لیں۔

0 0 votes
Article Rating
sairaghaffarwriter

sairaghaffarwriter

Hello, This is Saira Ghaffar. A story writer who cooks so much in her mind all day long. So, I decided to share some cooked pieces of tempting work for readers on appetite. I am sure you will love my shared posted here. Kindly drop your comments, share with a friend who loves to read. Subscribe if you want to read more stories cooked in my mind. I love to be in touch with my audience through comments and all likes you made on my posts. I would highly appreciate of you share my posts with your family and friends because it worth reading. Peace and Love. Regards, Saira Ghaffar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments